تل ابیب : فلسطینی جہادی تنظیم حماس کی قید سے رہا ہونے والی اسرائیلی خاتون کا کہنا ہے کہ حماس کے کارکنوں نے میرا بہت خیال رکھا جو خود کھاتے تھے وہی ہمیں بھی دیتے تھے انہوں نے کہا کہ ہم قرآن پریقین رکھتے ہیں آپ کو کئی تکلیف نہیں ہوگی۔
85 سالہ يوشويد لیفشتس نے تل ابیب کے ہسپتال میں نیوز کانفرنس میں کہا کہ مجھے اغواکرنے والے حماس کارکن موٹر سائیکل پر بٹھا کے لے گئے۔ ہمیں غزہ میں زیر زمین ایک سرنگ میں رکھا گیا جہاں ہم زمین پر بچھائے گئے گدوں پر سوتے تھے۔ وہاں گارڈز اور طبی عملہ موجود ہوتا تھا جبکہ ایک ڈاکٹر بھی ہر دوسرے، تیسرے دن یرغمالیوں کے چیک اپ کے لیے آتا تھا۔
يوشويد نے مزید بتایا کہ ہمیں سرنگوں میں رکھا گیا جہاں ہمیں کھانے کے لیے سفید پنیراور ککڑی دی گئی۔ اوریہ وہی کھانا تھا جو ہمیں اغوا کرنے والے بھی کھاتے تھے۔
يوشويد نے پریس کانفرس میں حماس کی قید کے دنوں سے متعلق حماس کے کارکنوں کے رویے سے متعلق بھی تفصیل سے بتایا۔ان کے مطابق جن 24 دیگر لوگوں کے ساتھ انھیں سرنگوں میں لے جایا گیا وہاں کا فرش نرم اور گیلا تھا ۔وہاں پہنچنے پر جب موٹر سائیکل سے اُتارا گیا تو ہمارا استقبال کرنے والوں نے کہا ہم قرآن پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے آپ لوگوں کو یہاں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔
انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے قید کے دوران ہر باریکی کا خیال رکھا یہاں تک کے خواتین کی نسوانی صحت سے متعلق باریکیوں کو بھی مد نظر رکھا گیا تھا۔دو یا تین گھنٹے کے بعد انھوں نے اغوا کیے گئے پانچ افراد کو ایک علیحدہ کمرے میں رکھا۔
يوشويد نے حماس کے زیر انتظام زیر زمین سرنگوں کے ایک ’بڑے نیٹ ورک‘ کی وضاحت اسے مکڑی کے جالے سے تشبیہ دے کر کی۔