نیروبی: سینئر صحافی ارشد شریف کے پولیس کے ہاتھوں قتل نے کئ سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ ارشد شریف کی کار کو چاروں طرف سے نشانہ بنایا گیا ۔9 گولیاں فائر کی گئیں ایک گولی سینئر صحافی کے سر میں لگی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔ ارشد شریف کے ساتھ موجود ان کے کزن خرم احمد جو گاڑی چلا رہے تھے انہیں خراش تک نہیں آئی۔
کینین ویب سائٹ ڈیجیٹل سیٹیزن کے مطابق کار کا جائزہ لینے پر پولیس کو معلوم ہوا کہ ونڈ سکرین کی بائیں جانب ایک گولی کا سوراخ ہے، دو گولیوں کے سوراخ پیچھے بائیں جانب کی نشستوں پر ہیں، ایک گولی کا سوراخ پیچھے دائیں دروازے پر ہے، چار سوراخ ڈگی کی دائیں جانب اور ایک سامنے کے دائیں ٹائر پر ہے جس کی ہوا نکل گئی ہے۔
کینیا کے میڈیا گروپ دی سٹار کے چیف کرائم رپورٹر سائرس اومباتی نے ٹویٹ کیا کہ واقعہ کے بعد میں نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا ہے مگر مجھے پولیس نے جائے وقوعہ پر جانے کی اجازت نہیں دی۔ پولیس نے وہ علاقہ اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے اور وہاں پر رکاوٹیں کھڑی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس فائرنگ میں ڈرائیور کو خراش تک نہیں آئی اور پولیس نے بتایا ہے کہ ڈرائیور محفوظ ہیں۔ اسی طرح اگر گاڑی کو روکنا تھا تو گاڑی کے ٹائروں پر فائرنگ کی جا سکتی تھی۔ براہ راست ارشد شریف پر فائرنگ کی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔