تجزیہ وقاص احمد اعوان
اچھا کھیلے، مقابلہ ٹکر کا تھا، میچ کا مزہ تو آیا لیکن ہم جیتا ہوا میچ ہار گئے، دنیا کی نمبر ون اوپننگ جوڑی نہ چلی، مڈل آرڈر میں صرف 2 بیٹسمین وکٹ پر ٹھہرے اور ایک متوازن ٹوٹل فراہم کیا، ویسے اوپننگ جوڑی کو ملا کر پاکستان کی پلیئنگ الیون میں صرف 4 ماہر بلے باز ہی کھلائے جا رہے ہیں، جس کے بعد آل راؤنڈرز اور مسلسل بڑے سکور کی تلاش میں حیدر علی جیسے نئے بلے باز شامل ہیں، رنز زیادہ بننے چاہیے تھے لیکن نہیں بنائے جا سکے تاہم انڈیا کو زیر کرنے کیلئے جتنے رنز درکار تھے شان مسعود اور افتخار احمد نے فراہم کر دئیے۔
ابتداءمیں فاسٹ باؤلرز نے وہی نتیجہ دیا جو درکار تھا، نسیم شاہ اور حارث رؤف نے بھارتی اوپننگ جوڑی اور پھر سوریا کمار کو چلتا کیا، پاور پلے میں بھارتی ٹیم 3 وکٹیں گنوا کر صرف 31 رنز بنا سکی، پٹیل کے رن آؤٹ ہونے کے بعد ویرات کوہلی اور پانڈیا نے انڈین اننگز کو سنبھالا، ابتدائی وکٹیں گرنے کے بعد جب یہ دونوں بیٹسمین وکٹ پر سیٹ ہونے کی کوشش میں تھے اس دوران کپتان بابر اعظم نے مسلسل سپنرز سے اوورز کروائے، تیز وکٹ پر سپنرز کے اوورز نے یقینا دونوں بھارتی بلے بازوں کو سیٹ ہونے کا موقع فراہم کیا پھر نواز کے ایک اوور میں 3 چھکوں سے میچ کا رخ پلٹتا دکھائی دینے لگا۔
آخری 3 اوورز میں بھارت کو 48 رنز درکار تھے، کوہلی اور پانڈیا کی موجوگی میں یہ ہدف حاصل کرنا بالکل ممکن تھا لیکن مد مقابل دنیا کی بہترین فاسٹ باؤلنگ ہو تو 15 سے زائد رن ریٹ کے ساتھ کھیلنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن کپتان نے ایسی حکمت عملی بنائی کہ آخری اوور میں دنیا کے بہترین پیس اٹیک میں سے کوئی دستیاب نہیں تھا، محمد نواز دنیا کے بہترین بلے بازوں کے خلاف 16 رنز کا جتنا ممکنہ دفاع کر سکتے تھے وہ انہوں نے کیا لیکن جیت بھارت کا مقدر بنی، ویرات کوہلی نے اسے کیرئیر کی بہترین اننگز قرار دیا۔
آخری اوورز میں امپائر کا نواز کی فل ٹاس پر فیصلہ متنازعہ تھا جس وقت کوہلی نے اس پر ہٹ لگائی گیند ”باڈی“ سے دور تھی اور ”ویسٹ ہائٹ“ سے نیچے گر رہی تھی، امپائر نے اسے ابتداءمیں نو بال قرار نہیں دیا لیکن کوہلی کی اپیل پر نو بال کا سگنل دے دیا گیا، کپتان بابر اعظم کی اس فیصلے پر امپائر سے تکرار بھی ہوئی لیکن فیصلہ تبدیل نہیں کیا گیا، کرکٹ ماہرین اس فیصلے کو متنازعہ اور جانبدار قرار دے رہے ہیں۔
کرکٹ ماہرین آسٹریلیا کی تیز ”پچز“ پر دو سپنرز کھلانے پر پاکستان ٹیم کی حکمت عملی کو درست نہیں سمجھتے بھارت نے بھی آج کے میچ میں 4 فاسٹ باؤلرز کو ٹیم میں شامل کیا، آخری اوور میں فاسٹ باؤلر کی عدم دستیابی کپتان کی دوران فیلڈ حکمت عملی پر سوالیہ نشان ہے۔
شاہین شاہ آفریدی بھی ردھم میں دکھائی نہ دئیے اپنی ایورج سپیڈ سے کم رفتار پر باؤلنگ کرواتے رہے، بقول عاقب جاوید ورلڈ کپ کھلاڑی سے اہم نہیں شاہین کو مکمل فٹ ہونے دینا چاہئے لیکن سوال یہ کہ کیا ورلڈ کپ واقعی کھلاڑی سے اہم ہے؟ ٹیم مینجمنٹ انجری سے ریکور ہوتے باؤلر کو کھلانے کیلئے بضد ہے لیکن سکواڈ میں موجود کسی دوسرے باؤلر کو موقع دینے کو تیار نہیں۔
نوٹ: یہ مضمون لکھاری کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔