تھا جس کا انتظار وہ فیصلہ آ گیا، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نا اہل قرار دے دیا۔ 36 صفحات پر مشتمل محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے جو عمران خان کا دوسرا ہدف ہیں 21 اکتوبر بروز جمعہ فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی کے سربراہ کو کرپٹ پریکٹس میں ملوث قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کی انہیں آئین کے آرٹیکل 63 پی کے تحت نا اہل کیا گیا ان پر آئین کے آرٹیکل 137، 168 اور 173 کی خلاف ورزی پر مقدمہ چلایا جائے گا اور جرم ثابت ہونے پر 3 سال قید اور ایک لاکھ روپے کی سزا دی جا سکے گی۔ تاحیات نا اہلی کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا تاہم ماہرین قانون کی رائے ہے کہ خان کا جرم نواز شریف کے ”جرم“ سے زیادہ سنگین اور بد ترین ہے۔ خان صاحب ملک کے پہلے وزیر اعظم ہیں جنہیں توشہ خانہ کے 14 کروڑ مالیت کے تحائف 3 کروڑ 78 میں خرید کر 11 کروڑ منافع کمانے کے الزام میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ قومی اسمبلی کے سپیکر نے ریفرنس الیکشن کمیشن کے پاس بھیجا جس نے دونوں جانب کے دلائل سن کر متفقہ فیصلہ کے ذریعے خان صاحب کو نا اہل قرار دے دیا۔ کہا تھا بچ کے رہیں اس وقت اونچی ہواؤں میں اڑ رہے تھے، ہر طرف سے ایک پیج پر تھے، جواب دیا میرا تحفہ میری مرضی، اسی انا اور احساس تفاخر میں مارے گئے۔ حکمران اپنے دور اقتدار میں اتنے گم ہو جاتے ہیں کہ انہیں دانستہ یا نا دانستہ ہونے والی غلطیوں کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ایک پیج پر ہونے کی تسبیح پڑھنے والوں کو پتا نہیں چلتا کہ کب دوات الٹ گئی اور صفحہ پر سیاہی پھیل کر ان کے زوال کا سبب بن گئی۔ اسی دور میں عرض کیا تھا کہ جاگتے رہنا ارد گرد کے بھروسہ پر مت رہنا۔ غلطیاں جلد یا بدیر لے ڈوبیں گی۔ سو یہ سانحہ بھی رونما ہو گیا آئینہ سامنے آیا تو کتنے بھید کھل گئے۔ ”نہ جانے کس گھڑی کیسی خطائیں ہو گئیں آخر، انہیں ہر موڑ پر رسوائیاں آواز دیتی ہیں“ ابھی ایک مقدمہ کا فیصلہ آیا ہے مزید مقدمات پائپ لائن میں پڑے ہیں۔ خان صاحب بڑے کھلاڑی ہیں لیکن 70 سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد وہ احتیاط سے نہیں کھیلے اور کریز سے باہر نکلنے پر آؤٹ ہو گئے۔ 21 اکتوبر کو تین چار خبریں یکے بعد دیگرے سننے کو ملیں۔ عمران خان نا اہل قرارپائے پاکستان بالآخر فیٹف کی گرے لسٹ سے نکل گیا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک سے ایک ارب 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی منظوری مل گئی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی ریٹائرمنٹ کا واضح اعلان کر کے ایک ٹنٹنا ختم کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں پانچ ہفتوں بعد ریٹائر ہو جاؤں گا اور فوج اب سیاست میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گی۔ اس اعلان کے بعد سارے بیانات، ٹوئٹس، افواہوں اور پیش گوئیوں کے دروازے بند ہو گئے۔ اقتدار کے لیے روز دروازوں پر دستک دی جاتی تھی۔ دن دیکھا نہ رات دروازہ کھٹکھٹا دیا یا زنجیر عدل ہلا دی۔ دروازہ نہیں کھلتا تھا عدالتیں کھل جاتی تھیں۔ ابھی تک سلسلہ جاری ہے نا اہلی کا فیصلہ آتے ہی فواد چودھری، شہباز گل اور دیگر نے فوراً کہا فیصلہ کو عدالت میں چیلنج کریں گے، عوام باہر نکلیں اور ایوانوں کو الٹا دیں۔ انقلاب کا آغاز ہو گیا۔ سننے والوں نے کہا انقلاب بد ترین سیلاب کے ساتھ بہہ گیا۔ فیصلہ عدالتوں میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے 36 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ الیکشن کمیشن نے کپتان کا کام کر دیا ہے ”لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام“ کمیشن نے آرٹیکل 63 پی کے تحت نا اہلی کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تا حیات نا اہلی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اگرچہ خان صاحب کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ صرف اس مدت کے لیے نا اہل قرار دیے گئے ہیں یعنی ضمنی انتخابات کی 6 سیٹیں جیت کر 7 سیٹوں پر ہار گئے۔ کیا عقل مندی کا مظاہرہ ہوا۔ تا حیات نا اہلی کے خلاف سپریم کورٹ میں فیصل واوڈا کی درخواست زیر سماعت ہے۔
فاضل چیف جسٹس نے بڑی دیر بعد تا حیات نا اہلی کو ڈریکونین قانون قرار دیا ہے۔ آئین میں تو تا حیات نا اہلی کا ذکر ہی نہیں تھا مگر نواز شریف اس کی زد میں لائے گئے جہانگیر ترین بھی نا اہل ہوئے اب فیصل واوڈا اور خان صاحب کی باری ہے عرش سے زمین پر آئے ہیں تو آٹے دال کا بھاؤ لکھ کر جیب میں رکھتے ہیں، فیصلہ تا حیات نا اہلی کے خلاف ہوا تو میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین بھی جی اٹھیں گے۔ تاحیات نا اہلی برقرار رہی تو اپنے کپتان بھی زد میں آئیں گے۔ فوجداری مقدمات دائر ہوئے تو 3 سال قید ایک لاکھ جرمانہ ہو گا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سپریم کورٹ گئے تو ان کی مرضی، کوئی کیا کہہ سکتا ہے جان کڑکی میں پھنسانے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ تاہم موجودہ حالات میں خوش نما منظر بدل رہے ہیں۔ لوگ سنبھل رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد عوامی رد عمل توقعات کے برعکس ہے۔ مختلف شہروں میں صرف اپنے قریبی ساتھیوں نے ہنگامہ آرائی کی پولیس کی نفری زیادہ اور مظاہرین کی تعداد کم تھی۔ شاہ محمود البتہ خاصے پریشان دکھائی دیے ان سے پوچھا گیا نا اہلی کے بعد پی ٹی آئی کا سربراہ کون ہو گا۔ انہوں نے چلتے چلتے جواب دیا، عمران خان۔ ابھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آ یا۔ اللہ تعالیٰ اپنا کرم کرے اور قتال کو جہاد قرار دینے والوں کو ہدایت دے اسلامی ٹچ دیتے دیتے اسلامی حدود عبور کر جاتے ہیں۔ ہنگامہ آرائی کا خطرہ برقرار ہے۔ صف بندی ہو رہی ہو گی لیکن اس کے ساتھ ہی رانا ثنا اللہ نے ن لیگی کارکنوں اور حامیوں سے کہا ہے کہ وہ بھی سڑکوں پر آ کر نا اہلی کا جشن منائیں۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے بھی اسی قسم کی ہدایت کر دی تو کیا ہو گا۔ واضح جواب تصادم صرف تصادم نہیں خونی تصادم۔ لاشوں کی سیاست مائنس ون کی آڑ میں مائنس آل۔ پارلیمنٹ پہلے ہی اپنے آپ کو سرنڈر کر چکی ہے۔ حکومت انجانے خوف میں مبتلا۔ ن لیگ حالات سے لا تعلقی کا احساس دلا رہی ہے۔ عوام کو کون کنٹرول کرے گا اللہ تعالیٰ اپنا کرم کرے صورتحال اچانک بدل گئی۔ اس سے پہلے لگتا تھا کہ پوری ملکی سیاست 29 نومبر پر رک سی گئی ہے۔ اپنی مرضی کی تعیناتی، چیف الیکشن کمشنر کی برطرفی اور عام انتخابات کی تاریخ پر کپتان کی طوفانی اور غضب ناک پریس کانفرنس، دھمکیاں لانگ مارچ کے لیے وقفہ وقفہ سے الٹی میٹم لیکن کوئی الٹی میٹم حتمی یا آخری ثابت نہیں ہوا۔ دھمکیاں بھی کن کو جو دھمکیوں اور خطرات کو خاطر میں نہیں لاتے۔ کپتان وزیر اعظم شہباز شریف اور پی ڈی ایم کے دیگر رہنماؤں کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ ایک گگلی کی مار ہیں جو مخاطب ہیں وہ جانتے ہیں کچھ عرصہ پہلے تک اپنے تھے جانے کیا ہوا کہ ایک دم میں غیر ہو گئے۔ پچھلے پانچ چھ مہینوں سے عجیب و غریب رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ”جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں“ خان صاحب تیل کی دھار دیکھتے دیکھتے نا اہل ہو گئے۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ افواہیں پھیلا پھیلا کر تھک گئے۔ ہر کارے بھیج بھیج کر نڈھال ہو گئے کوئی بلاوا نہ پیغام، ہل جل ہوتی ہلا شیری نہ سہی کندھے پر ہاتھ رکھ دیا جاتا تو الیکشن کمیشن شاید 3 نومبر سے پہلے ہی فیصلہ نہ سناتا۔ تاحیات یا 5 سال کی نا اہلی اور 3 سالہ قید سے بچنا، این آر او تھری لینا اولین مقصد، این آر او تھری مل جاتا تو کسی ڈیل کے ذریعہ ڈھیل مل جاتی اسمبلی سے باہر آنے کی غلطی کا اعتراف لیکن بڑی دیر ہو گئی اب بھی انا درپیش سائفر کی تحقیقات کی شرط لگا دی۔ جانتے تھے سائفر سے دودھ نہیں نکلے گا لیکن اپنی تسلی کے لیے نت نئے بیانیے ”شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہیں آپ، محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں۔“ خان صاحب اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے اب تک نچلے نہیں بیٹھے، کرکٹ کے دور ہی سے کوچز کی ہدایات اور رہنمائی کے عادی ہیں۔ سیاست میں آئے تو پہلے کوچوں کا تعین کیا تھرڈ امپائر بھی میسر آ گیا۔ انگلی کے سہارے چلتے رہے۔ حکمرانی کے دوران پے در پے غلطیاں سرزد ہوئیں تو کوچوں نے ہاتھ کھینچ لیے۔ سہارے ایک ایک کر کے ہٹتے گئے۔ نتیجہ میں حکمرانی ختم اقتدار خواب بن گیا۔ اس عرصہ میں جنون نے نچلا نہ بیٹھنے دیا پھر تین کوچ مقرر کر لیے ایک دیرینہ تعلقات والی مقتدر شخصیت جس نے حکمت عملی تشکیل دی اور اس پر عملدرآمد کے لیے حوصلہ افزائی کی۔ دوسری روحانی طاقت بن کر منظر عام پر آئی۔ تیسرے کوچ نے حکمت عملی پر عمل درآمد کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے، کپتان ان ہی کوچوں کے سہارے نوجوان نسل کی رگوں میں نفرت کا زہر اتارتے رہے۔ کالجوں یونیورسٹیوں کے کچے ذہنوں میں مخالفین کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑکاتے رہے اب تک بھڑکا رہے ہیں۔ ہار کیسے مانیں گے ساری تگ و دو بھاگ دوڑ کا مقصد صرف اقتدار ساڑھے تین سالہ دور میں مزہ نہیں آیا مطلق العنانی کے باوجود اقتدار سے ہٹتے ہی گلہ کرنے لگے کہ اختیارات کسی اور کے ہاتھ میں تھے۔ میرے ہاتھ میں ہوتے تو شیرشاہ سوری بن جاتا۔ سارے خواب ادھورے رہ گئے چار چار کی ٹولیوں کو سفید جھنڈے ہاتھوں میں دے کر کئی بار بھیجا مگر ندامت کے سوا کچھ نہ ملا۔ افسردگی، مایوسی اور تشنج کی موجودہ کیفیت ان ہی مسلسل ناکامیوں کا نتیجہ ہے۔ بُرا بھلا کہہ کر بھی دیکھ لیا الٹی آنتیں گلے پڑیں پہلے شہباز گل پھر اعظم سواتی دھر لیے گئے۔ باہر آئے تو ”بے ڈھنگی چال“ بھول جائیں گے۔ خان صاحب کی طرف بھی ”آہنی ہاتھ“ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ فارن فنڈنگ کیس میں 53 لاکھ ڈالر کی کرپشن کا معاملہ درپیش ہے۔ ”اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو، ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا“ اب آخری سوال درپیش، لانگ مارچ ہو گا؟ ہو گا تو کب ہو گا۔ اسی ہفتہ یا اسی مہینے یا پھر اگلے مہینے اگلے سال یا کبھی نہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد وفاقی حکومت اقدامات کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ لانگ مارچ کیسے ہو گا…… انتظار فرمائیے۔