میں چھوٹا تھا تو والدہ نے بتایا کہ دل کے فیصلے اچھے ہوتے ہیں کیونکہ دماغ کے فیصلوں سے انسان اکثررشتوں کو کھو دیتا ہے گو بعد ازاں یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر فیصلہ دل سے کرنے والے بھی تنہا رہ جاتے ہیں ٗ ہائی سکول گئے تو استاد نے بتایا کہ دل انسانی جسم میں بائیں جانب ہوتا ہے اور سیاست کے میدان میں اترے تو دائیں اوربائیں نظریات کے دودیوہیکل نظریے سامنے کھڑے تھے۔ بچپن سے طبیعت بائیں جناب راغب تھی سو بائیں بازو کی انقلابی سیاست کو مقدم جانا اور نظریاتی سیاست کو پڑھنے کے بعد اُس پر ہی پکے ہوتے گئے لیکن خوشی قسمتی یہ رہی کہ دوران تعلیم اوربعد ازاں دونوں نظریات کو بھرپور پڑھنے کا موقع ملا۔ اندرون ِ لاہور کی تنگ تاریک گلیوں کے سیلان زدہ کمروں میں ہونے والے ضیائی عہد کے سٹڈی سرکل سے لاہورکے کالجز اورپنجاب یونیورسٹی تک کے سفر اوراسلامی جمعیت طلبا نے عملی طور پر دونوں نظریات کو میرے سامنے کھول کررکھ دیا۔ 42 سال کی طویل سیاسی اورصحافتی زندگی میں اخبارات اورچینلز سے کہیں زیادہ میں نے انجمن ترقی پسند مصنفین اورحلقہ ارباب ذوق لاہور سے سیکھا جس نے مجھے دوسروں کا موقف غور سے سننے کا ہنر سکھایا اور بہتر سوچنے میں اہم کردار ادا کیا۔
آخر کار وہی ہوا جس کا ڈر روز اول سے تھا عمران خان کی غیر عقلی سیاسی تیراندازی کے نتیجہ میں زخمی ہونے والے اداروں اورپامال ہونے والی آئینی شقوں نے اُسے سیاسی تنہائی کا شکار کردیا۔ تحریک انصاف کے ورکروں نے اپنی زندگیاں برباد کرکے اُسے وزیر اعظم بنایا اور وہ اپنی حماقتوں سے نا اہل ہونے کے ساتھ ساتھ مجرم بننے کی راہ پر گامزن ہو گیا۔ اُن لوگوں کی صداقت ٗ امانت اور وفاداری کو کسی عدالتی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں کا بڑا حصہ ایک خواب کو تعبیر میں بدلنے پر خرچ کردیا۔ بالا دست طبقے کی ہر آفر اور پیشکش کو ٹھکرا کرصرف آنے والی نسلوں کیلئے معاشی انصاف سے عدالتی انصاف تک کے سفر کے دوران صراط کے ہرسیاسی پل کو جرأت اورحوصلے سے عبور کیا۔
مجھے عظیم ماؤ کے وہ عظیم ترین ساتھی یاد آ رہے ہیں جنہوں نے چین کی معاشی، سیاسی، انتظامی اور اپنی نظریاتی آزادی کیلئے اپنا سب کچھ اپنے چیئرمین ماؤ پر نچھاور کردیا۔ لانگ مارچ اوراس سے ملتے جلتے مارچ پاکستان میں انتہائی بے توقیر ہو چکے ہیں۔ماؤ کے حقیقی لانگ مارچ کے دوران ایک جگہ دلدل نے اُن کا راستہ روک لیا کیونکہ سرکاری فوج نے بمباری کرکے اُس دلدل پربنے پل کو نیست و نابود کردیا تھا۔ ماؤ نے ایک لمحہ سوچا اور پھر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا توایک کامریڈ دوڑتا ہوا آیا اور اُس نے دلدل میں چھلانگ لگا دی اورپھر ایک کے بعد ایک ساتھی گہری دلدل میں اترتاچلا گیا اور دیکھتے دیکھتے انسانی جسموں کا ایک پل بن گیا جس کے اوپر سے گزر کر ماؤزے تنگ نے اُس دلدل کو عبور کیا۔ اسی طرح لانگ مارچ کے شرکاء پرجب شاہی طیارے فائرنگ کرتے تو زخمی ساتھی اپنی سرخ ٹوپی اتار کر دوسرے ساتھی کو دیتے ہوئے کہتا کہ ”چیئرمین ماؤ کی حفاظت کرنا وہ کل کا چین ہے۔“یہ اس حقیقی لانگ مارچ کے صرف دو مناظر ہیں جس کو پاکستان میں لونڈوں کا کھیل بنا دیا گیا ہے۔ جس کے پاس کوئی نظریہ ہوتا ہے اور نہ افرادی قوت وہ منہ اٹھا کر لانگ مارچ بلکہ ملین مارچ تک کی کال دے دیتا ہے۔ گوکہ تاریخ سے نا بلد لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا سے رائٹ اور لیفٹ کی لڑائی ختم ہو چکی ہے۔ تو میرا سوال یہ ہے کیا رائٹ اوررانگ کی سیاست بھی ختم ہو گی؟تو اس کا جواب ہمیشہ نفی میں آتا ہے۔ آپ میرے نظریے سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن آپ مجھے سوچنے یا اپنے عوام دوست نظریہ پرکام کرنے سے نہیں روک سکتے۔اگر آپ میرے موقف کا احترام کرتے ہیں ٗ اُس پرمکالمہ کرنے کیلئے تیار ہیں اورمیرے آزادی اظہار کے حق کو جائز سمجھتے ہوئے مخالف نظریہ رکھنے کے باوجود میرے اظہارکے حق کیلئے لڑنے کیلئے تیار ہیں جیسے میں آپ کے مخالف نظریے کو رد کرنے کے باوجود آپ کے اظہار کے حق کیلئے جان بھی دے سکتا ہوں تو پھریہ سماج آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن یکطرفہ موقف رکھنا اور اُسے آخری سچ سمجھنا معاشرے کو انارکی اور بدامنی کی طرف لے جاتا ہے۔ کسی بھی باشعور اور تندرست دماغ کو آپ کچھ دیر کیلئے تو بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن ایسا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ممکن نہیں ہوتا۔
الیکشن کمیشن کے متفقہ فیصلے میں چیئرمین تحریک انصاف کو نہ صرف نا اہل قرار دے دیا گیا بلکہ اُس کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ میں اس حقیقت سے مکمل آشنا ہوں کہ عمران خان اسی دن نا اہل ہو گیا تھا جس دن میاں محمد نوازشریف کو پاکستان سے باہر بھجوایا گیا تھا۔ اقتدار فراہم کرنے والی نادیدہ قوتوں اور غیر مرئی مخلوقات نے اپنا سیکنڈ آپشن بچا لیا تھا۔ ممکن ہے ایساانہوں نے تحریک انصاف کی غیرتسلی بخش حکومتی کارکردگی دیکھتے ہوئے کیا ہو لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عدالت سے سزا یافتہ کسی شخص کا پاکستان سے یوں چلے جانا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ اس سے پہلے مولانا مودودی کو بھی ایوب دور میں سعودی سرکار لے اڑی تھی لیکن اُس وقت ملک میں فوجی راج تھا اور فوجی عدالتیں تھیں لیکن اقتدا ر سے نکل کر عمرا ن خان کا موقف بھی یہی رہا کہ”حکومت تو میری تھی لیکن اقتدار کسی اور کے پاس تھا۔“حالانکہ تحریک کے سینئر اوروفادار ساتھیوں نے اُسے سمجھایا تھا کہ اگروہ اپوزیشن میں بیٹھ جائے تو متحدہ اپوزیشن کی مختلف الخیال جماعتیں مل کر دو سال بھی حکومت نہیں کرپائیں گی اورہمیں مڈ ٹرم الیکشن یا اپنی شرائط پر عدمِ اعتماد کے ساتھی مل جائیں گے اور ہمیں اپنے ایجنڈے پر عملدآمد کیلئے زیادہ سے زیادہ وقت مل جائے گا لیکن اقتدار اور زیادہ سے زیادہ طاقت کا حصول بعض اوقات انسان کو اپنے نظریے سے دور لے جاکر جدوجہد کی تھکاوٹ بھلا دیتا ہے۔
کہتے ہیں کہ عقل مند کومشورے کی ضرورت نہیں ہوتی اور بیوقوف کو مشورہ دینے کا فائدہ نہیں۔اب چیئرمین تحریک انصاف عدالتی صداقت و امانت کاسرٹیفکیٹ گلے میں لٹکا کر اُن عدالتوں میں پیش ہو تا رہے گا جن پر پہلے دن سے اُس کا عدمِ اعتماد ہے اوراسی عدالتی نظام کوٹھیک کرنا اور انصاف کے حصول کی تحریک چلانا اُس کے ایجنڈے میں سب سے اوپر تھا۔عمران خان کو فوری طورپر حقیقی آزادی مارچ کا بھی اعلان کردینا چاہیے تاکہ ِاس جولیس سیزر کو معلوم ہو سکے کہ اس کے سیاسی لشکرمیں ایک نہیں لاتعداد بروٹس پائے جاتے ہیں۔کیونکہ اس کا ایک مظاہرہ تو عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ جب چیئرمین تحریک انصاف نے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا اُس وقت تحریک انصاف کے ورکرز اپنے گھروں میں جا کر آدھی نیند پوری کرچکے تھے۔ لاہورہائیکورٹ کے سامنے انصاف لائرز ونگ پاکستان کے صدر شاداب جعفری احتجاجی وکلا کے ساتھ کھڑے تھے اور اُن کے ساتھ پچاس سے زائد وکلا ہرگز نہیں تھے جن میں تحریک انصاف کے وکیل فاؤنڈر ممبر بھی شامل تھے۔ چیئرمین تحریک انصاف آج جس قانون کے خلاف بول رہے ہیں کل تک وہ اسی قانون سے مستفید ہونیوالوں میں سرفہرست تھے۔ چیئرمین تحریک انصاف سے لوگوں کے مفاداتی رشتے بنے اور بدقسمتی سے وہ اپنے جانثار ساتھیوں سے دو ر ہوتا چلا گیا۔ عمران خان کے ساتھ نیٹ پریکٹس کرنے والے نیٹ پریکٹس کرتے رہے اور اُن کا چیئرمین کرپٹ پریکٹس تک کی منازل طے کر گیا۔ دکھ اس بات کا نہیں کہ عمران نیازی ہار گیا رنج اس بات کا ہے کہ نواز اورزرداری جیت گئے او ر چیئرمین تحریک انصاف آج پھر وہیں کھڑا ہے جہاں سے یہ سفر شروع ہو اتھا آج اُسے ان ساتھیوں کی ضرورت تھی جو اُسے قوم کا مسیحا سمجھتے تھے لیکن افسوس کہ وہ بیمار تندرست ہوچکے ہیں اوراب عمران نیازی کے اردگرد صرف مسیحاؤں کا ہجوم ہے جو فیصلہ آنے کے صرف چند گھنٹوں بعد چیئرمین شپ کیلئے الفاظی جنگ لڑ رہے تھے۔