گورنر سٹیٹ بنک کا بیان سن کر نجانے کیوں لاہور میں ہونے والے ایک الیکشن کا کردار سلیم کرلا یاد آ گیا ساتھ ہی اسی طرح کے کچھ اور کریکٹر جن میں شریف دیوا،ایم پی خان اور امبر شہزادہ بھی یاد آنے لگے۔ یہ تمام کریکٹر وہ تھے جو کھلے عام کہتے تھے کہ ہم پاکستان میں بدعنوانی کو عام کریں گے اور عوام انھیں مزاحیہ اداکار سمجھ کر ان کے ساتھ جلوس بھی نکالتے اگرچہ عوام صرف مزہ لینے کے لئے انکا ساتھ دیتے تھے اور ووٹ نہیں دیتے تھے ووٹ جب نکلتے تو چند ایک ہی ہوتے لیکن ان میں ایک امیدوار ایسا بھی تھا جس نے ایک الیکشن میں اس وقت کرکٹ کے ہیرو سرفراز نواز کو ناکوں چنے چبوا دیئے سیاستدانوں سے تنگ عوام کی بہت بڑی تعداد اس کے جلوس میں شامل ہوتی وہ پرانی انارکلی اپنے گھر سے جلوس شروع کرتا عجیب حلیہ میں ایک لمبا شخص اپنے گلے میں جوتیوں کا ہار ڈال کر جلوس شروع کرتا اور لوگ نعرے لگاتے اس کے پیچھے چلتے مخالف مضبوط امیدوار سرفراز نواز تھے جو اس کا جلوس دیکھ کر پریشان ہو جاتے انتخابات میں اگرچہ سرفراز نواز واضح اکثریت سے کامیاب ہو گئے لیکن سلیم کرلا نے کافی زیادہ ووٹ حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا۔ کچھ نظام سے تنگ اور کچھ نے مذاق مذاق میں سلیم کرلا کو ووٹ دے دیا۔اسی طرح ایم پی خان ہر صدارتی الیکشن میں کاغذات جمع کرواتے وہ الگ بات ہے کہ کاغذات مکمل نہ ہونے کی بنا پر منظور نہیں ہوتے تھے وہ تجویز کنندہ میں اللہ میاں لکھ دیتے تھے کچھ لوگ کہتے تھے کہ وہ شہرت اور پیسہ حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتے تھے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ وہ کسمپرسی کی حالت میں دنیا سے گیا۔اپنے تمام سیاسی کیریئر میں وہ سائیکل پر ہر جگہ جاتا تھا اور ایسے نعرے لگاتا تھا جیسے آجکل ہمارے بعض وزراء لگاتے ہیں۔
ہمارے موجودہ نظام پر اگر کوئی اچھی طرح طنز کرتا ہے تو وہ ڈاکٹر امبر شہزادہ ہے ہر دوسرے الیکشن میں حصہ لینا ان کا مشغلہ ہے اور یہ سب وہ پچیس سال سے زائد عرصہ سے کر رہے ہیں اگر چہ ان کے بیلٹ باکس سے کبھی بہت زیادہ ووٹ نہیں نکلتے لیکن ان کے جلوسوں اور جلسے میں نوجوانوں کی ایک خاطر خواہ تعداد موجود رہی۔ ان کے مقبول نعروں میں تھا کہ رشوت عام کرے گا۔۔۔ڈاکٹر، بدعنوانی کو جائز قرار دے گا ڈاکٹر گورنمنٹ کالج لاہور کا تعلیم یافتہ کئی برس سے ہمارے معاشرے کے سیاستدانوں پر طنز کے نشتر چلا رہا ہے اسے جھوٹ اور منافقت سے نفرت ہے لیکن پاکستان (صفحہ 4پر بقیہ نمبر2)
سے محبت ہے اسی لئے شائد وہ ایسے نعرے ایجاد کرتا ہے جو دراصل کام ہو رہے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر نواب امبر شہزادہ شخص اپنے آپ کو ٹویٹر پر 'پاکستان کا متبادل وزیر اعظم' کہتا ہے، نواب امبر شہزادہ کے پاس چیزوں کا ایک '' اچھا '' بلکہ '' تازہ دم نقطہ نظر '' ہے۔ ان کے مطابق، قانون ساز کرپٹ ہو سکتے ہیں، لیکن صرف ضرورت کے مطابق اور جیسا کہ وہ چاہتے ہیں۔ پریس سے بات کرتے ہوئے ہمیشہ کہتے ہیں کہ اگر ان کی پارٹی حکومت بناتی ہے تو وہ کرپشن کو کم سے کم کریں گے اور اسے قانونی شکل دیں گے۔ جیسا کہ آپ اس پر عمل کرتے ہیں، یہاں کچھ اور ہے: وہ اپنی تجویز سے بھی نعرہ لگا کر اپنی تقریر کو ختم کرتا ہے۔ڈاکٹر نواب امبر شہزادہ کوایسا امیدوار بھی کہا جو ہمیشہ ہارتا ہے کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ گزشتہ 30 سالوں میں، وہ اپنے مخالفین کے ہاتھوں کئی بار شکست کھا چکا ہے،جس کی ایک وجہ وہ نظام کی خرابی بتاتے ہیں کہتے ہیں کہ وہ آج بھی پر امید ہیں کہ وہ کامیابی حاصل کریں گے بے شمار شکستوں سے وہ بالکل مایوس نہیں کہتے ہیں کہ۔"آپ جناب سرکار پارٹی، ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے ناطے، میں ہر الیکشن لڑنے پر مجبور ہوں۔"
اب اگر ہم دوسری طرف دیکھیں تو ہمارے بہت سے سیاستدانوں کا کیریکٹر کیا ہے صاف نظر آتا ہے کہ وہ کس لئے سیاست میں آئے ہیں اسی لئے آئے ہیں کہ جو کام ڈاکٹر نواب امبر شہزادہ کھلم کھلا کرنے کا کہتا ہے وہ چھپ کر کرتے ہیں۔وہ ڈاکٹر کے اس نعرے پر بھی مکمل عمل کرتے ہیں کہ بد عنوانی عام کرے گا۔۔ڈاکٹر۔پیسے بنائے گا۔۔۔ڈاکٹر۔نالائقی عام کرے گا ڈاکٹر۔ اب یہ سب کام ڈاکٹر نواب امبر شہزادہ تو نہیں کر سکا لیکن ہمارے ہاں اکثر سیاستدان کر رہے ہیں۔ خاص کر مجھے یہ سب گورنر سٹیٹ بنک کا خوبصورت بیان سن کر ڈاکٹر امبر شہزادہ کی خوب یاد آئی کہ جو نالائقی ڈاکٹر امبر شہزادہ کرنا چاہ رہے تھے گورنر سٹیٹ بنک نے کر دیا۔اس پر یقینا نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ بھی خوش ہوں گے اور سلیم کرلا اور ایم پی خان کی روح بھی نہ صرف یہ لوگ رضا باقر سے خوش ہونگے بلکہ ہمارے بہت سے وزراء سے بھی جو الٹے سیدھے بیانات دے کر حکومت کے غلط اقدام کو درست ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
ہمایوں سلیم