اندھیر نگری چوپٹ راج کا مقولہ تو بہت سنا تھا لیکن اس کی عملی تشریح عمران خان بہادر کے پاکستان میں دیکھنے کو مل رہی ہے…… بلکہ یوں کہئے کہ جس نیم جمہوری نیم آمرانہ نظام کا ازسرنو تجربہ کیا گیا ہے اس کے شاخسانے کے طور پر اتنی پراگندگی جلوہ دکھا رہی ہے…… آسمانوں سے باتیں کرتی اور عوام کی زندگی کو اجیرن بناتی ہوئی مہنگائی نے جو قوم کاکباڑہ نکال کر رکھ دیا ہے اس پر ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے فطری بات ہے…… اپوزیشن لیڈروں کا بھی اپنی اپنی جگہ پر صورت حال سے سیاسی فائدہ اٹھانا غیرمتوقع نہیں لیکن یہ تحریک لبیک اچانک کہاں سے دوبارہ نمودار ہو گئی…… اس کے موجودہ لیڈر اور مرحوم خادم حسین رضوی کے بیٹے سعد رضوی کو اچانک جیل سے رہائی دلا کر اس جماعت کی جانب سے کیے جانے والے 2018 کے ہنگاموں اور فیض آباد کے مشہور دھرنے کی جو یاد تازہ کی جا رہی ہے…… یہ سب کچھ آخر کس کے اشارے یا حکم پر ہو رہا ہے…… کون اس کے پیچھے ہے…… تحریک والوں کے موجودہ مظاہروں کا حقیقی مقصد آخر کیا ہے…… ان سوالوں کا جواب ملنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس نامی گرامی تحریک سے اڑھائی تین سال پہلے جو مقاصد حاصل کیے گئے تھے فیض آباد کے دھرنے کو جس طرح ثمربار بنایا گیا تھا اس کی بنا پر پرانی حکومت کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے اور نئے انتخابات کے ذریعے عمران خان کو لانے کی فضا بنائی گئی…… کیا اسی سے ملتے جلتے مقاصد کا حصول اب پیش نظر ہے…… تب اسٹیبلشمنٹ نوازشریف سے تنگ آ چکی تھی…… ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ایک بوگس فیصلے کے شاخسانے کے طور پر اسے وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کر دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود ابھی تک اس کی جماعت قائم تھی…… مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی لہٰذا اسے جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ایک فارم میں غلط اندراج سے فائدہ اٹھا کر جس کا فوراً تدارک بھی کر دیا گیا…… مگر فیض آباد کے دھرنے نے اپنے ”کمالات“ دکھائے…… اب وہی اسٹیبلشمنٹ دوسری وجوہ کی بنیاد پر عمران خان سے تنگ آئی بیٹھی ہے…… کھلاڑی وزیراعظم کی جانب سے ضد اور انا کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے…… اصل صاحبان اقتدار کو یہ امر ہرگز منظور نہیں کہ ایسی شخصیت کو ڈی جی ”آئی ایس آئی“ کے عہدے سے تبدیل کر کے کہیں اور بھیج دیا جائے جس نے کھلاڑی کو برسراقتدار لانے کی خاطر ہر غیرآئینی اور غیراخلاقی حربہ استعمال کیا…… ڈی جی ”آئی ایس آئی“ کے طاقتور منصب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرضی کے ججوں پر مشتمل بنچ بنوائے حسبِ منشا فیصلے حاصل کیے یوں نوازشریف کی برطرفی کا سامان کیا اس سے جو خلا پیدا ہوا اس کی بنا پر مرضی کے انتخابات کے نتیجے میں عمران خان کا کرسی اقتدار پر آ بیٹھنا ممکن ہوا پھر اسی ’باکمال‘ شخصیت کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے فیض آباد کے دھرنے کے شرکاء میں ان کی اعلیٰ خدمات کے عوض پیسے بھی تقسیم کیے اب جو 6 اکتوبر کو مریم نواز نے اپنی دھواں دار پریس کانفرنس میں ان صاحب کا پول کھول کر رکھ دیا ہے وہ متنازع ترین شخصیت بن گئے ہیں …… روایت کے مطابق ان کو منصب پر قائم رکھنا ممکن نہیں رہا چنانچہ 6 اکتوبر کو ہی ہماری مقتدر ترین شخصیات کے اجلاس میں کچھ دیگر افسران عالی مرتبت کے ساتھ ان کی تبدیلی کا بھی اعلان کر دیا گیا تو عمران خان کو یہ ہرگز منظور نہ تھا…… نہلے پر دہلا یہ کہ جن صاحب کو ان کی جگہ لانے کا اعلان کیا گیا وہ اپنے مزاج، سوچ اور اپروچ کے
حوالے سے قطعی مختلف بتائے جاتے ہیں …… یہ عمل بھی ہمارے وزیراعظم بہادر کے لئے گوارہ خاطر نہ تھا…… چنانچہ مخالفت پر ڈٹ گئے…… یہاں سے ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک بڑے تنازع کا آغاز ہو گیا جو ابھی تک حل ہونے کا نام نہیں لے رہا…… اس وقت ناقابل برداشت مہنگائی کے علاوہ ملک بھر میں جو فساد اٹھ کھڑا ہوا ہے اس کا سبب یہ تنازع بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک صفحے پر ہونے کے جس گھمنڈ کا بہت اظہار کیا جاتا تھا وہ تار تار ہو کر رہ گیا ہے…… وزیراعظم اور اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے سے بات کرنے کو تیار معلوم نہیں ہوتے اگرچہ ان کے درمیان لاحاصل میٹنگز بھی ہوئی ہیں تو کیا اس موڑ پر تحریک والوں کو سڑکوں پر لاکھڑا کرنے کا مقصد وہی ہے جو 2017-18 میں تھا……
اصل حقیقت تو خدائے بزرگ و برتر بہتر طریقے سے جانتا ہے لیکن آثار یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم بہادر کسی شعبے میں بھی کامیابی کے جوہر دکھانے کے قابل نہیں رہے…… نوازشریف کی مقبولیت میں کرپشن کے تمام تر الزامات (جن میں ایک بھی ثابت نہیں ہو سکا) قیدوبند کی صعوبتیں اور بیرون ملک جا بیٹھنے کے باوجود کمی نہیں آئی مگر عمران خان کے تین سالہ دور حکومت نے ہر شعبہ زندگی میں ایسا تعفن پیدا کیا ہے کہ حکومتی محکموں سے لے کر عام آدمی کے مسائل زندگی تک میں ناگواری محسوس ہو رہی ہے…… اس حکومت کے قدوم میمنت لدوم کی بدولت لوگ اپنی زندگیوں سے تنگ آنا شروع ہو گئے ہیں …… نوبت باایں جا رسید کہ اپوزیشن جماعتیں وفاق اور صوبہ پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لانے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہی ہیں …… صوبہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کی بجائے جو استعفیٰ دے دیا ہے…… اگرچہ جام کمال کی طرف سے استعفے کی تردید آ گئی ہے تاہم بلوچستان کا معاملہ بہت متزلزل اور گمبھیر ہے اس نے اپوزیشن والوں کا حوصلہ بڑھا دیا ہے کیونکہ اس کام کی شروعات صوبہ بلوچستان سے ہوا کرتی ہیں …… دوسری جانب حکومت اپنی ہی پالیسیوں کے منفی نتائج سے اس قدر تنگ آ چکی ہے کہ وزیراعظم کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ اسمبلیاں توڑ دینے کا اعلان کر دیں …… جب کسی ملک میں ایسی صورت حال جنم لے لے تو وہ پرلے درجے کے انتشار اور افراتفری کو جنم دینے کے نسخہ ترکیب استعمال کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی…… 1971 میں ہمارے فوجی حکمرانوں نے یقینا ملک کو دولخت کر کے رکھ دیا تھا مگر ملک کے داخلی حالات اس قدر برے نہیں تھے جبکہ آج کی صورت حال یہ ہے ہم داخلی سطح پر اس مقام تک جا پہنچے ہیں جہاں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی…… آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے……
مگر خارجہ معاملات میں جو درگت بن رہی ہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے کسی ارسطو کی ضرورت نہیں …… وزیر خزانہ شوکت ترین جنہیں امریکہ میں قیام کے دوران آئینی مجبوری کے تحت مشیر خزانہ کا بھیس بدلنا پڑا…… ’آئی ایم ایف‘ کی بیشتر شرائط منظور کرنے کے باوجود اس کے ساتھ 6 بلین ڈالر کی امداد کا معاہدہ کیے بغیر واپس لوٹ آئے ہیں جبکہ ان کے ساتھ گئے ہوئے گورنر سٹیٹ بنک رضا باقر نے وہ جھک ماری ہے کہ لوگ دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور ہو گئے ہیں یہ تو خیر چند بلین ڈالر کی بھیک مانگنے کا مسئلہ تھا جو اتنے ترلے منتوں کے باوجود ابھی تک مل نہیں سکی مگر اے قارئین باتمکین وہ جو وزیراعظم نے پھیپھڑوں کے پورے زور کے ساتھ اپنے حلق سے Absolutely Not بآواز بلند نعرہ لگایا اور جس نے گزشتہ تین مہینوں کے دوران ہماری فضاؤں کے اندر جو گونج پیدا کر رکھی تھی وہ اتنا کھوکھلا اور مضحکہ خیز ثابت ہوا ہے کہ پاکستانی قوم کے لئے اپنے آپ پر سخت تعجب کے اظہار بلکہ حددرجہ پشیمانی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا…… تازہ ترین خبر کے مطابق امریکہ کے ساتھ یعنی اس امریکہ کے ساتھ جس کا صدر ہمارے وزیراعظم سے ہاتھ ملانا تو دور کی بات ہے ٹیلی فون پر ہیلو ہائے کرنے کے لئے تیار نہیں اسے افغانستان میں آپریشن کرنے کے لئے ہماری جانب سے فضائی اور زمینی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے سمجھوتے پر گفتگو ہو رہی ہے…… یہ امریکیوں کا کہنا ہے جبکہ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا ارشاد ہے کہ سمجھوتہ تو پہلے سے ہی موجود ہے…… امریکی کہتے ہیں کہ پاکستان نے اس کے عوض دو شرائط پیش کی ہیں ایک یہ کہ دہشت گردی ختم کرنے کی خاطر امریکہ ہماری مدد کرے گا دوسرے الفاظ میں امریکہ کو پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا حق دیا جا رہا ہے یوں امریکہ کو خوش کرنے کی خاطر اپنی داخلی خودمختاری پر سودا کرنے کی سعی ہو رہی ہے…… لیکن اس سے بھی زیادہ شرمناک شرط یہ ہے امریکہ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر کرنے میں مددگار ثابت ہوگا…… موجودہ حکومت کا آج تک نعرہ یہ رہا ہے کہ بھارت سے اپنی شرائط پر بات کریں گے…… اب ہم یہاں تک نیچے گر گئے ہیں کہ امریکہ کی منت و سماجت پر آ گئے ہیں کہ ہمارے اڈے لے لے…… ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت کر لے لیکن بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے میں مدد فراہم کر دے…… پاکستان کی داخلی کیا خارجی خودمختاری کو بھی اس نیم فوجی نیم جمہوری جعلی نظام میں پاؤں اور بوٹوں تلے روند کر رکھ دیا گیا ہے……