ربیع الاول وہ ماہ مبارک ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور پھر اسی ماہ میں 23 سالہ مشن کی شاندار، پرعزیمت تکمیل پر رفیق اعلیٰ کی طرف لوٹ جانے کی یاد دہانی کرواتا ہے۔ سو اس نسبت سے ہمارے لیے یہ اپنے احتساب کا مہینہ بھی ہے۔ جو کل آپ کا مشن تھا وہ آج ہمارا فرض ہے جس کے لیے ہم رب تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہیں۔ جب تک پرچہئ عمل ہاتھ میں ہے، قرآن کا عطا کردہ فرض، نصب العین بناکر جیا جائے۔ لیظہرہ علی الدین کلہ…… تآنکہ خالق مالک، رب العالمین کا بھیجا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پھیلایا دینِ حق، تمام ادیان باطلہ پر غالب آجائے۔ ہم اپنی ذات، اپنے گرد وپیش، متعلقین پر اس دین کو غالب کرنے اور رکھنے کے مکلف ہیں۔ میری زندگی کا مقصد ترے دین کی سرفرازی!
اس حوالے سے فکر ونظر کی مسلسل آبیاری ہماری ضرورت ہے۔ ہماری زندگی کا ہر لمحہ، ہر سانس اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نتھی ہے۔ اس یاد کو دنوں، مہینوں میں مقید نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ کا حکم آپؐ پر درود بھیجنے کا بھی واجب التسلیم، ہماری اپنی ضرورت بھی ہے۔ اگرچہ ہمارے صلوٰۃ ودرود کا نوحہ اقبال نے پڑھا تھا:
اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت وہ گداز
بے تب وتابِ دروں میری صلوٰۃ اور درود
ہر دعا کی طرح درود بھی ذمہ داریاں لے کر آتا ہے۔ مثلاً دعا اولاد کی مانگی جاتی ہے۔ اس دعا کی قبولیت ذمہ داریوں کی لامنتہا فہرست ہمیں تھما دیتی ہے! اسی طرح درود، آپ پر جامع ترین دعائے رحمت ہے۔ اس میں آپؐ کے نام کو بلند کرنا، آپؐ کے لائے دین کا غالب ہونا سبھی شامل ہے۔یہ سب کام ہیں جو ہم سے مطالبہ کرتے ہیں اس دعا میں عمل کا رنگ بھرنے کا! سو بھر بھر درود بھیجیے کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنے والے کے نام کے ساتھ پہنچایا جاتا ہے۔ جواباً کریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا درود کا تحفہ آپ کے نام بھی آئے گا۔ (طبرانی) اور اللہ تعالیٰ دس رحمتیں، دس مغفرتیں، دس درجات کی بلندی سے نوازے گا! ساتھ ہی کمربستہ ہوجائیے دین ا للہکی سربلندی کے لیے، کہ یہی اس ماہ مبارک پر شکرانے کا حق ہے۔
ہم قدم بہ قدم احادیث میں مذکور اگلے مراحل (جن سے دنیا کو گزرنا ہے) کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اللہ کی طرف سے مسلسل گلوبل انسان کی بے بسی، لاچاری، اس کی پلاننگ، عزائم کا ٹوٹنا اطہر من الشمس ہوکر سامنے آ رہا ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی یکایک صفر ہوجاتی ہے۔ وہ جو: فعال لما یرید ہے (وہ جو چاہے کر ڈالنے والا ہے)، ولایخاف عقبھا ہے (اور اسے (اپنے فعل کے) کسی برے نتیجے (backlash) کا خوف نہیں ہوتا۔ قدرتی آفات کا اچانک پے درپے ٹوٹ پڑنا۔ طالبان کا مبہوت کن ظہور، عالمی ایٹمی طاقتوں کی غیرمتوقع پسپائی۔ ہر واقعہ روح میں پیوست وعدہئ الست، رب تعالیٰ کے اقرار والا دل و دماغ کادروازاہ کھٹکھٹاتا ہے۔ سوال پوچھتا ہے۔ جواب ہمارے پاس ہے، ہمارے ذمے ہے۔
یہ وقت ایمان کے خزانوں کے منہ کھول دینے، انہیں عام کرنے کا ہے۔ اللہ نے یہ دنیا یونہی الل ٹپ نہیں بنائی۔ ایک زبردست بے چوک، کامل اکمل روحانی نظام ہے۔ انسان کے لیے عقیدہ بے خطا طریقے سے روز ازل پیوست کردیا گیا ہے، اللہ کے حضور اقرار کا۔ ہم مکمل اعلیٰ ترین تہذیب،روحانی تعلیم وتربیت کے ساتھ زمین پر اتارے گئے ہیں۔ ہمارے باپ اعلیٰ ترین منصب ہمراہ لائے نبوت کا، سو پوری انسانیت عالی نسب ہے۔ اللہ نے اس سیارے پر تین طرح کے لوگ آباد کیے۔ انبیاء ورسل کا پاک، طاہر ومطہر کامل گروہ۔ انبیاء کی امتیں اور عامۃ الناس۔ اللہ کا پیغام نبیوں نے پہنچایا۔ انبیاء کا پیغام قبول کرنے والی آل، انسانی قیادت کے لیے انبیاء کے بعد تک ان کے پیغام کو لے کر چلنے والی امتیں۔ (کنتم خیر امۃ …… والی بنی اسرائیل اور پھر امت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔) یوں دنیا کبھی اللہ کے ازلی ابدی پیغام سے خالی نہیں رہی۔ جس رب نے پتھر کے پیٹ میں کیڑے کورزق دیا، رزق سے ہر انسان کو بھی بہرہ مند فرمایا۔ جسم کے رزق کے ساتھ، روح کا رزق، ہدایت بھی اللہ ہی کے ذمے تھی۔ان علینا للھدی (بے شک راستہ بتانا ہمارے ذمے ہے۔ اللیل۔ 12) قبولیت، عدم قبولیت کا اختیار انسان کا اپنا تھا۔
اللہ نے راہ دکھانے کا انتظام تو سبھی کا کر رکھا ہے۔ پھر روز اول سے مکمل ریکارڈ ہمہ نوع اس کے ہاں فرداً فرداً موجود ہے۔ آڈیو، وڈیو، سافٹ کاپی ہارڈ کاپی! (اب یہ سمجھنا نہایت آسان ہے۔) بحیثیت امتی ہم مسلمانوں کے پاس تو سرے سے بہانہ سازی یا بچ نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہیں کہ ہم گوروں کی سی سیکولر، بے دین زندگی گزار کر تجاہل عارفانہ کے ساتھ انگریزی بگھارتے اللہ کے حضور یوں جا کھڑے ہوں کہ ہم تو کلیتاً لاعلم تھے! گویا بکنگھم پیلس یا وائٹ ہاؤس میں پیدا ہوئے تھے۔ اللہ، رسولؐ، اسلام کی خبر ہی نہ تھی۔ قرآن صرف ایک دفعہ ترجمے سے پڑھ لینا سب واضح کیے دیتا ہے بشرطیکہ اٹھایا جائے۔کفارکی کتنی تعداد ایسی ہے جو صرف قر آن کا ترجمہ پڑھ کرایمان لے آتی ہے۔
ہر گروہِ انسانی پر اللہ نے پیغمبر بھیجے۔ توحید، رسالت، آخرت کی تعلیم، زندگی گزارنے کے لیے مکمل رہنمائی تاکہ اشرف المخلوقات کی طرح رہیں بسیں۔ اس زمین پر اللہ کی کبریائی، اطاعت وفرمانبرداری کا نظام قائم کریں۔ ’اور (اے نبیؐ) یاد رکھو اس عہد وپیمان کو جو ہم نے سب پیغمبروں سے لیا ہے، اور تم سے بھی۔ اور نوح، اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم علیہم السلام سے بھی۔ سب سے ہم پختہ عہد لے چکے ہیں۔ تاکہ سچے لوگوں سے (ان کا رب) ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے اور کافروں کے لیے تو اس نے درد ناک عذاب مہیا کر ہی رکھا ہے۔‘ (الاحزاب۔ 7-8) پوری انسانی تاریخ میں انبیاء کو جھٹلانے اور مذاق اڑانے والوں کے ساتھ کیا ہوا، سورۃ ہود اور القمر پڑھنا کافی ہے۔
اسی طرح اٰل عمران آیت 81 میں پیغمبروں سے اس عہد کا بھی تذکرہ کہہر نبی ورسول بعد میں آنے والے رسول/ نبی کی تصدیق، مدد کرے گا۔ ہر نبی نے اللہ کے اذن سے آگے آنے والے نبیوں کی اللہ کے اذن سے اپنی امتوں کو بھی خوشخبری دی اور
ایمان لانے، تائید وتصدیق کا حکم دیا، خاتم النبیینؐ تک۔ دعائے خلیل اور نوید مسیحاؑ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو یہ نہایت محکم ومربوط نظام ہے۔ اس تسلسل میں کسی جھوٹے نبی کی نہ بن پائی۔ کسی دور نے اسے قبولیت نہ دی۔ اسود عنسی تھا، مسیلمہ کذاب یا مرزا غلام احمد قادیانی۔ سلسلہئ نبوت رسالت اور آسمانی رہنمائی میں ادنیٰ ترین رخنہ یا اشتباہ نہیں۔ بھٹکنا، بھٹکانا آسان نہیں، الا یہ کہ بندہئ نفس بھٹکنے پر ادھار کھائے بیٹھا ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کہ میں تمہیں ایسی راہ پر چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے۔
اللہ نے پہلے وارننگ دے دی کہ آگے بندے کو کیا درپیش ہے۔ زندگی بعد موت کی مکمل رہنمائی قرآن وحدیث میں ہے۔ گواہیوں کا پورا نظام جو ہر فرد کا مقدمہ شفاف انصاف سے فیصل کردے گا۔ آخرت میں (1) رسولوں کی گواہی: ’اور جب رسولوں کی حاضری کا وقت آن پہنچے گا۔‘ (المرسلٰت۔ 11) ہر امت پر گواہی کہ اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچا دیا تھا۔ (2) اعمال نامے کی گواہی: ’اور نامہئ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا…… مجرم لوگ اپنی کتابِ زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج نہ ہوگئی ہو۔‘ (الکہف۔ 49) (3) زمین کی گواہی: ’زمین اس روز اپنے اوپر گزرے ہوئے حالات بیان کرے گی۔‘ (الزلزال۔ 4) آج کلوز سرکٹ کیمرے اس کی تصدیق کررہے ہیں کہ یہ ممکن ہے! خالق کائنات کے لیے تو یہ آسان ترین ہے! ’ذرا زمین سے بچ کر رہنا کیونکہ یہ تمہاری جڑ بنیاد ہے اور اس پر عمل کرنے والا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے عمل کی یہ خبر نہ دے خواہ اچھا ہو یا برا۔‘ (طبرانی) سب کچھ کھل کر سامنے آجائے گا۔ کیا بعید کہ بڑی بڑی اسکرینوں پر چلے۔ ’جس روز پوشیدہ اسرار کی جانچ پڑتال ہوگی۔‘ (الطارق۔ 9) (4) گواہیوں میں ہاتھ، پیر، کان، آنکھیں، ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی۔ ’تم دنیا میں جرائم کرتے جب چھپتے تھے تو تمہیں خیال نہ تھا کہ کبھی تمہارے اپنے کان، آنکھیں جسم کی کھالیں تم پر گواہی دیں گی۔ بلکہ تم نے تو سمجھا تھا کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کو خبر نہیں ہے۔ (حٰم السجدہ۔ 20-22) قرآن میں جابجایہ مناظردکھائے ہیں کہ یہی آج اکڑتا بحث کرتا انسان آخرت میں پچھتاووں میں گھرا تڑپ تڑپ کر کہتاہے: کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔ اطاعت کی ہوتی! (الفرقان، الاحزاب،النساء۔)
انسان کے پاس خوش فہمیوں یا حالت انکار (state of denial) کی نفسیات میں رہنے کی گنجائش نہیں۔ آج علم کی دنیا ہے۔ روح کی دنیا کو سمجھنے کے لیے قرآن اٹھانا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ذات سے وابستہ ہونا ازبس لازم ہے! بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں!
تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لاالہ الااللہ
لغتِ غریب جب تک تیرا دل نہ دے گواہی