روایت ہے کہ جب بانی پاکستان اپنی زندگی کے آخری ایام زیارت میں گذار رہے تھے،تو شعبہ میڈیکل کی ایک نرس کے فرائض منصبی کی ادائیگی اور خدمت پر وہ بہت خوش ہوئے ایک روز خوشگوار موڈ میں قائد اعظم ؒنے اِس نرس سے کہا بیٹا!میرے لائق کوئی کام ہو تو ضرور بتانا،موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے کہا کہ میرا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے میرا سارا خاندان وہاں رہتا ہے جبکہ مجھے ملازمت کے لئے کوئٹہ رہنا پڑ رہا ہے،آپ میرا تبادلہ پنجاب کروا دیں، موصوفہ نے یہ استدعا اُس وقت کے گورنر جنرل کو کی، جو بستر علالت پر استراحت فرما رہے تھے، بانی پاکستان اس کی بات سن کر کچھ دیر کے لئے خاموش ہو ئے، پھر بو لے بیٹا! سوری!یہ کام گورنر جنرل نے نہیں محکمہ صحت کے ذمہ داران نے کرنا ہے۔
اسی طرح کی دوسری روایت ہے کہ بانی پاکستان تعطیل کے روز اپنے پرسنل سیکرٹری کے ساتھ کراچی ملیرمیں اپنی گاڑی میں سفر کر رہے تھے، راستہ میں ریلوے پھاٹک بھی تھا، جب گاڑی پھاٹک کے قریب پہنچی تو یہ بند تھا گاڑی کی آمد میں کچھ تاخیر تھی،اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے سیکرٹری نے یہ بتاکر پھاٹک کھولنے کا حکم اہلکار کو دیا کہ گاڑی میں قائد اعظم ؒ تشریف فرما ہیں، جب یہ بات بانی پاکستان کے علم میں آئی، تو انھوں نے اس فعل کو انتہائی ناپسندیدگی نگاہ سے دیکھا اور اپنے سیکرٹری کی سرزنش کی، اور کہا کہ سربراہ مملکت قانون کا احترام نہیں کرے گا تو دوسروں سے کیسے توقع رکھی جاسکتی ہے۔
کہا جاتا ہے جب یہ سیکرٹری بعد ازاں قائد عوام کے ساتھ کراچی میں گاڑی میں سفر کر رہے تھے تو انھوں نے قانون کی بالا دستی کے حوالہ سے قائد اعظم کا کوئی واقعہ بتانے کی فرمائش کی،سیکرٹری نے مذکورہ بالا قصہ ہی بیان کیا، کچھ دیر بعد بالکل ایسی ہی صورت حال سے سابقہ پیش آیا،تو مسٹر بھٹو نے ریلوے پھاٹک بند دیکھ کر غصہ نکالا اور ڈرائیور کو بھیجا کہ پھاٹک والے بتاؤ کہ بھٹو گاڑی میں موجود ہے وہ اسکو فوراً کھول دے اور پھر ایسا ہی ہوا،عبدالرب نشتر کے صاحبزادے سائیکل پر گورنمنٹ کالج لاہور جایا کرتے تھے ایک روز بارش ہونے لگی تو انھوں نے باپ سے فرمائش کی کہ گورنر ہاوس کی گاڑی میں انھیں جانے کی اجازت دی جائے مگر گورنر نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ سرکاری گاڑی ذاتی کام کے لئے استعمال نہیں کی جاسکتی۔
ابتدائی ایام میں ایکٹ 1935 چند ترامیم کے
ساتھ نافذالعمل تھا جس کو 1947 کا جزوی آئین بھی کہا جاتا ہے اس کے تحت اُمور مملکت قانون کے مطابق چلائے جارہے تھے،لیکن اس میں نقب زنی اِس وقت ہوئی جب”نظریہ ضرورت“ کا فلسفہ عدلیہ نے متعارف کروایا، بعض غیر سیاسی شخصیات کے حوصلے اِتنے بلند ہوئے کہ انھوں نے1956 کے متفقہ آئین ہی کو توڑ دیا جو جلد نافذ کیا جانا تھا،اس کے بعد آئین شکنی کی روایت ایسی پختہ ہوئی کہ اِس قومی دستاویز کو ریاست میں تختہ مشق بنایا جاتا رہا، اس دیدہ دلیری کو دیکھتے ہوئے،افسر شاہی بھی شیر ہوگئی،وہ سیاستدان جو اپنی جائیدادیں بیچ کر پارلیمنٹ کا ممبر بننے کا”ٹھرک“ پورا کیا کرتے تھے، انھوں نے بھی حصہ بقدر جثہ مانگنا شروع کر دیا، ہر سیاسی دور میں پلاٹ، پرمٹ کا کلچر پروان چڑھتا رہا، سرکاری ملازمتوں اور ترقیاتی کاموں کے کوٹہ سسٹم نے سیاست کے میدان میں اترنے والوں کے وارے نیارے کر دئیے، باوردی ارباب اختیار نے اپنے پیٹی بھائیوں کا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے انھیں بھی کھلی چھٹی دے دی،اس مار دھاڑ کی کوکھ سے مافیاز نے جنم لیا، یہ ریاست سے اتنے طاقتور ہو گئے کہ موجودہ سرکار قانون کو ناک کی موم بنانے کا طعنہ انہی کو دیتی ہے،انکا وجود سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں بکثرت پایا جاتا ہے، حالانکہ قائد اعظمؒ نے اِسی ریاست میں قانون کی حکمرانی کو اپنا شیوہ بنایا اُصول پسندی جو بانی پاکستان اور اِنکے ہم عصروں میں پائی جاتی تھی، اب یہ قصہ پارینہ ہو چکی ہے۔
فی زمانہ ریاست کو آئین کی بالادستی، قانون اور ضابطوں کی بجائے کمرشل انداز میں چلایا جارہا ہے،ریاست کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں ابن الوقت موجود نہ ہوں،ہم اس خوش فہمی میں غلطاں ہیں کہ جس طرح چاہیں اپنی ریاست کو چلائیں،جس طرز کی حکمرانی کو اپنے لئے بہتر جانیں اس کو اپنا لیں، تاہم اس گوبل ولیج میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا،عالمی ادارے ہمارے اوپر مسلسل ”اکھ“ رکھے ہوئے ہیں۔
ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رول آف لاء کے جاری کردہ انڈیکس میں ارض پاک کی رینکنگ ارباب اختیار کی گورننس کا پتہ دیتی ہے، مذکورہ ادارہ نے درجہ بندی کا جو معیار مقرر کیا ہے اس کے مطابق بدعنوانی پر قابو پانا، بنیادی حقوق کا تحفظ،کریمنل اور سول جسٹس کے علاوہ اہل اقتدار اور اہل اختیار کے طرز عمل،قانون کی حکمرانی کا اصول اور شفاف حکومت جیسے عنوانات سامنے رکھے گئے،انڈیکس کی رینکنگ کے مطابق ہم جنوبی ایشائی ممالک میں افغانستان سے آگے جبکہ دیگر دنیا کی ریاستوں میں آخری نمبر پر ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس رپورٹ پر اظہار تاسف کیا ہے، بعض ناقدین کے مطابق یہ رپورٹ ہر شعبہ ہائے زندگی میں ابتری کی عکاسی کر رہی ہے،سرکار کی طرف سے تعلیم، صحت،جان ومال سمیت کسی بنیادی حق کی آزادی بھی نہیں ہے،حتیٰ کہ بولنے اور سوچنے پر بھی قدغن ہے،اِنکے خیال میں حزب اختلاف کی جماعتیں، طاقتور بیورو کریٹ اور بدعنوان عدلیہ بھی اس کی ذمہ دار ہے، بقول اِنکے کہ رینکنگ اِن ممالک کی ہوتی ہے جو جمہوری اقدار کی پاسداری کرتی ہیں۔
یہ چشم کشا رپورٹ محض مقتدر طبقہ کے لئے ہی لمحہ فکریہ نہیں بلکہ ہر اس ذمہ دار کے لئے بھی چارج شیٹ کی حیثیت رکھتی ہے جو اس پیرا میٹر پر پورا نہیں اتر رہے جو انسانی بنیادی حقوق کی بلا امتیاز فراہمی کے لئے طے ہیں سستا انصاف، روزگار،تعلیم، صحت، علاج،معالجہ، روٹی کپڑا، مکان کا مستانہ نعرہ ہر سیاسی عہد میں لگا ہے، المیہ یہ ہوا کہ اس کو بلند کرنے والے ہی اِن نعمتوں سے محروم چلے آ رہے جن کے حق میں لگے،انکی ہر دور میں چاندی ہوتی رہی ہے۔
ہمارا نظام عدل جس سست رفتار سے گامزن ہے اس سے تو قانون کی حکمرانی کی توقع رکھنا دیوانے کا خواب ہے، طاقتور افراد اداروں اور شخصیات نے ریاست کے اندر ریاست بنا کر اپنا اُلو سیدھا کرنے کی جوروایات ڈالی ہیں اس کا خاتمہ اس طرح کی عالمی رپورٹ کی اشاعت سے اب ممکن نہیں، یہ محض کاغذ کا ٹکرا نہیں ہے، طرزحکمرانی سے لے کر سرمایہ کاری،امن وامان تک اس سے وابستہ ہے۔
گورننس کی زوال پذیری میں بڑا ہاتھ اختیارات کے ناجائز استعمال اور صوابدیدی احکامات کا بھی ہے جس کو طاقتور طبقہ اپنے لئے باعث رحمت اور قابل فخر سمجھتا ہے دُنیا کی کسی بھی ریاست میں صوابدیدی قوانین کی کوئی گنجائش موجود نہیں،بانی پاکستان نے اپنی خدمت پر مامور نرس کی طرف سے پنجاب میں تبادلہ کی استدعا پر اس سے معذرت کر کے مقتدر طبقات کو ایسے اختیارات پر اپنی مرضی سے عدم عمل داری کا بڑا واضع پیغام دیا تھا۔ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رول آف لاء کی یہ رپورٹ اِن بے ضمیر افراد کے دل پر در احساس کی دستک کی سی حیثیت رکھتی ہے، جن کے ا عمال نامے عالمی سطح پر ریاست کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔