بہاولپور: ماضی کی معروف گلوکارہ گل بہار بانو اِن دنوں کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہی ہیں۔ گذشتہ روز پولیس نے گلوگارہ کو ان کے بھائی کے گھر سے حفاظتی تحویل میں لے کر علاج کے لیے اسپتال منتقل کی تاہم ذہنی حالت کی خرابی کی تصدیق کے بعد انہیں واپس گھر چھوڑ گئی۔
واضح رہے کہ پولیس کواطلاع ملی تھی کہ گل بہار بانو کو ان کے بھائی نے گھر میں قید کر رکھا ہے۔
جس پر سمہ سٹی پولیس نے گزشتہ روز قصبہ خانقاہ شریف میں زبردستی قید کرنے کے الزام پر گلوکارہ کے بھائی کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں اپنی حفاظتی تحویل میں لیا تھا۔
اس موقع پر پولیس کو میڈیکل رپورٹ دکھائی گئی تھی کہ گلوکارہ کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں اور ڈاکٹروں نے انہیں علیحدہ رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
گلوگارہ کے بھائی کے مطابق گلبہار بانو 2009 سے ذہنی مرض 'شیزوفرینیا' کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں گھر میں بند کر کے رکھا جاتا ہے۔ تاہم پولیس کا کہنا تھا کہ گل بہار بانو کو اسپتال میں داخل کروا کے ان کا مناسب علاج کرایا جائے گا۔
بعدازاں جب اسپتال میں سابق گلوکارہ کی ذہنی حالت خراب ہونے کی تصدیق ہوئی تو پولیس نے ہاتھ کھڑے کر لیے اور آدھی رات کو انہیں واپس گھر چھوڑ گئی۔
گل بہار بانو 1955 میں بہاولپور میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے استاد افضل حسین سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور 1982ء میں ریڈیو پاکستان بہاولپور سے گلوگاری کے کیریئر کا آغاز کیا۔ بعدازاں وہ کراچی منتقل ہوگئیں، جہاں انہیں صحیح معنوں میں شہرت ملی۔
حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 2007ء کو صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔
گل بہار بانو 'چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری'، 'توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے' اور 'بعد مدت اُسے دیکھا لوگو' جیسے لازوال گیت گاچکی ہیں، جن کی آواز آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی آرٹسٹ ویلفیئر فنڈ کی قائمہ کمیٹی نے اکتوبر 2016 میں تصور خانم، گلبہار بانو اور دیبا سمیت 34 ضرورت مند فنکاروں کے لیے 90 لکھ روپے کی گرانٹ بھی منظور کی تھی۔