شہریار اشرف
کسی سیاسی جماعت ، گروہ یا فرد کے حق اقتدار کے تعین کے لیے جمہوریت سے بہتر نظام آج تک کی انسانی تاریخ میں سامنے نہیں آسکا جس میں عوام کے لیے ، عوام ہی کے ذریعے حق اقتدار کو ریاستوں کے ایمان کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ جمہوریت کی کامیابی میں دیگر کئی عناصر کے ساتھ ساتھ ووٹنگ کے نظام کا شفاف اور کسی بھی شک و شبہ سے بالا تر ہونا حد درجہ ضروری ہے،اسی لیے دور جدید میں ووٹنگ کے عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے مختلف ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ کا عمل کہیں تجربات سے گز رہا ہے تو کہیں اس کا استعمال بھر پور طریقے سے جاری ہے۔ انٹر نیٹ کے ذریعے ووٹنگ کا طریقہ 4ممالک آرمینیا ، کینیڈا ، ایسٹونیااور سوئٹزر لینڈ میںاستعمال ہو رہا ہے۔جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت ، برازیل ، وینزویلا ، پیراگوئے ، بلجیم ، امریکہ ، سپین ، کینیڈا ، سوئٹزر لینڈ ،بھوٹان ، پانامہ اور نائجیریا سمیت 14ممالک کے الیکشن کمیشنز الیکٹرانک ووٹنگ پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔ یوں 31ممالک جن میں ارجنٹائن ، آرمینیا ، آسٹریلیا ، بنگلہ دیش ، بلجیم ، بھوٹان ، برازیل ، بلگیریا،کینیڈا ،عوامی جمہوریہ کانگو ، ڈومیینیکن ریپبلک ،ایکواڈور، ایسٹونیا، فجی ، فرانس،بھارت ، ایران ، عراق ، جنوبی کوریا ، کرغزستان ، میکسیکو ، منگولیا ،نمیبیا ، نیوزی لینڈ ، عمان ، پانامہ ، پیرو ، روس ، متحدہ عرب امارت اور امریکہ شامل ہیں ، میں سیاسی انتخابات کے دوران الیکٹرانک ووٹنگ مشینز استعمال ہو رہی ہیں یا ہوچکی ہیں۔ پاکستان میں بھی حکومت وقت اس سلسلے میں پر عزم نظر آتی ہے۔ بھارت ، بھوٹان ،وینزویلا اور برازیل ملک بھر میں الیکٹرانک ووٹنگ کا استعمال کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میںالیکشن کمیشن کی اپنی تیار کردہ ووٹنگ مشین کو پائلٹ پراجیکٹس میںکامیابی سے استعمال کیا ہے لیکن ابھی تک اسے ملک بھر میں استعمال نہیں کیا جارہا۔
گزشتہ دنوں پاکستانی سیاست میں خاصی گرما گرمی دیکھنے میں آئی، ویسے بھی جب الیکشن کاوقت قریب آنے لگتا ہے توسیاسی چالیں اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔اس صورتحال میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل کرجانے والی چیزالیکٹرانک ووٹنگ مشین تھی۔اپوزیشن کاکہنا تھا کہ وہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے ووٹ ڈالنے کے حق میں نہیں جبکہ حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے آئندہ الیکشن میں ووٹ ڈالنے پربضد تھی۔اور پھراس کانتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کے احتجاج اور اعتراضات کے باوجود ملک میں انتخابی اصلاحات کا متنازع بل منظور کر لیا گیا ہے۔اس بل کے تحت 2017 کے الیکشن ایکٹ میں دو ترامیم تجویز کی گئی ہیں جو کہ ووٹنگ کے لیے الیکٹرانک مشینوں کے استعمال اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کا حق دینے سے متعلق ہیں۔یہ بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 221 ارکانِ اسمبلی نے ووٹ دیا جبکہ اس کی مخالفت میں 203 ووٹ آئے جس کے بعد بل کی شق وار منظوری دی گئی۔اس بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن کے ارکانِ اسمبلی ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔مشترکہ اجلاس کے دوران ایک قانونی تنازع یہ بھی کھڑا ہوا کہ حکومتی بل پاس کرانے کے لیے ایوان میں اس وقت موجود اراکین کی اکثریت ہی درکار ہے یا پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران کی تعداد ملا کر اکثریت درکار ہو گی۔مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان کا کہنا تھا کہ اس وقت ایوان میں جتنے لوگ موجود ہیں ان کے ووٹوں سے ہی فیصلہ ہو جائے گا جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے رولز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا مشترکہ اجلاس میں ترمیم کی منظوری کے لیے دونوں ایوانوں میں اکثریت درکار ہے اور اگر حکومت کے پاس 222 ووٹ نہ ہوں تو قانون منظور نہیں ہو سکتا۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق اس اجلاس میں کل 27 بل منظوری کے لیے پیش کیے گئے جن میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے علاوہ کلبھوشن یادیو اور عالمی عدالت انصاف سے متعلق بل، اینٹی ریپ بل 2021 اور سٹیٹ بینک آف پاکستان بینکنگ سروسز کارپورشن ترمیمی بل بھی شامل ہیں۔ان مجوزہ بلوں میں سب زیادہ متنازع انتخابی اصلاحات کا معاملہ تھا جس پر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ایک واضح خلیج نظر آئی۔قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف نے اس اجلاس سے خطاب میں مشترکہ اجلاس کو موخر کر کے انتخابی اصلاحات پر مکمل مشاورت کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر حکومت الیکٹرانک ووٹنگ کا قانون منظور کروا لیتی ہے تو وہ آج سے ہی آئندہ الیکشن کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ پارلیمان کی روایات کی دھجیاں اڑا کر قانون بلڈوز کروانا غلط بات ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’سوچ بہت محدود ہے کہ بلز کو بلڈوز کیا جائے لیکن انہیں عوام سے ووٹ ملنا مشکل ہے اسی لیے مشین کے ذریعے کسی طریقے سے سلیکٹڈ حکومت کو طول دینا چاہتے ہیں۔انہوں نے ای وی ایم کو ’ایول اینڈ وشیئس مشین‘ قرار دے دیا اور کہا کہ ’حکومت کی نیت میں فتور ہے اس لیے کالے قوانین پاس کرانا چاہتے ہیں۔ اس کا کیا مقصد ہے؟ کچھ ایسا ہو جائے کہ عوام کے پاس نا جانا پڑے اور ای وی ایم ان کا مقصد پورا کر دے۔‘شہباز شریف نے کہا کہ جو ادارہ شفاف الیکشن کرانے کا ذمہ دار ہے ان کے اعتراضات کے باوجود حکومت الیکشن قوانین میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے۔قائدِ حزبِ اختلاف نے کہا کہ وہ اس ایوان کے نگران ہیں اور اگر انہوں نے ان بلز کو بلڈوز ہونے دیا تو تاریخ اور عوام انہیں معاف نہیں کرے گی۔ اس پر اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ’میں کوئی کام آئین اور قوانین کے خلاف نہیں کروں گا۔
وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قائد حزب اختلاف کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’آج ایسی تاریخی قانون سازی ہو گی جو ماضی کی غلطیاں دور کر کہ مستقبل میں شفاف الیکشن کی بنیاد رکھے گی۔حکومت ’کوئی کالا قانون نہیں لانا چاہتی بلکہ ماضی کی کالک دھونا چاہتی ہے‘۔وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے عجلت میں یہ اجلاس اپوزیشن پر مسلط نہیں کیا۔خیال رہے کہ حکومت نے اس سے قبل اپنے اتحادیوں، بالخصوص مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے انتخابی اصلاحات کے بل پر تحفظات کے بعد گذشتہ دنوں طلب کیا گیا پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ملتوی کر دیا تھا۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ای وی ایم ایک ’ایول وشیئس مشین نہیں بلکہ یہ مشین ان ایول ڈیزائنز کو دفن کر دے گی جو آج تک الیکشن کو متنازع بناتی رہے ہیں‘۔آپ کی کوشش ہے کہ الیکشن کمیشن کے اختیارات چھین کر نادرا کو دے دیے جائیں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ن لیگ نے اپنے دور میں الیکشن پر ایسی قانون سازی کی تھی جس پر اس وقت کی تمام اپوزیشن جماعتیں بشمول تحریک انصاف بھی متفق تھیں۔’اگر آپ ہمارے ساتھ مل کر قانون سازی کرتے تو اگلے الیکشن متنازع نہیں ہوتے اور یہ وزیر اعظم عمران خان کی کامیابی ہوتی لیکن جب آپ الیکشن کمیشن اور اپوزیشن کے اعتراضات کے باوجود ووٹنگ مشین کا قانون پاس کروانے کی کوشش کریں گے تو ہم آج سے اگلے الیکشن کو نہ ماننے کا اعلان کرتے ہیں۔’ہم الیکشن کمیشن کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور جب تک ان کے اعتراضات رہیں گے ہمارے بھی اعتراضات رہیں گے۔آپ کی کوشش ہے کہ الیکشن کمیشن کے اختیارات چھین کر نادرا کو دے دیے جائیں۔بلاول بھٹو زرداری کے مطابق بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ووٹنگ کے معاملے میں یہ نہیں ہو سکتا کہ ووٹ پیرس میں ڈالا جائے اور اس کا اثر ملتان کے کسی حلقے کے نتیجے پر پڑے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت یکطرفہ، زبردستی، اپنے طریقے کی قانون سازی کرنا چاہتی ہے اور ’اگر حکومت نے یہ قانون پاس کر بھی لیا تو ہم عدالت جائیں گے۔ ہم نے آئین بنایا ہے اور ہم اس آئین کی پامالی کو عدالت میں چیلنج بھی کریں گے اور شکست بھی دیں گے۔ ٭٭٭