لاہور میں ٹاؤن شپ، گرین ٹاؤن، باگڑیاں اور ملحقہ علاقوں پر مشتمل حلقہ این اے 133 مسلم لیگ نون لاہور کے صدر پرویز ملک کی اچانک وفات سے خالی ہوا تھا اور اس میں سب سے پہلے جس پارٹی نے اپنے امیدوار کااعلان کیا تھا وہ حکمران جماعت تھی۔ تحریک انصاف نے اپنے کمٹڈ، نظریاتی اور کہنہ مشق رہنما جمشید اقبال چیمہ کو میدان میں اتارا تھا۔ جمشید اقبال اس سے پہلے لاہور کے حلقے این اے 127سے الیکشن لڑ چکے تھے، وزیراعظم کے خوراک اور زراعت کے مشیر کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ان کی اہلیہ مسرت جمشید مخصوص نشستوں پر رکن پنجاب اسمبلی ہیں اور پارٹی کا اپنے شوہر کی طرح فرنٹ فٹ پر دفاع کرتی ہیں مگرجمشید اقبال چیمہ سے جو غلطی ہوئی اس کے بارے میں گمان نہیں کیا جا سکتا تھا۔
انتخابات کے بارے میں قانون کہتا ہے کہ کوئی بھی پاکستانی، ملک کے کسی بھی حلقے سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ سکتا ہے، چاہے وہ اس کا رہائشی اورووٹر بھی نہ ہو، جس طرح عمران خان نے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے چار حلقوں سے انتخاب میں حصہ لیا یا شہباز شریف الیکشن لڑنے کے لئے کراچی چلے گئے مگر امیدوار کے لئے ضروری ہے کہ اس کے تجویز کنندہ اور تائید کنندہ اسی حلقے کے ووٹر ہوں۔ یہاں جمشید اقبال چیمہ سے ایک سے زیادہ غلطیاں ہوئیں۔ پہلی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے وہاں کے مقامی رہنماؤں پر اعتماد کیا اور ذاتی تصدیق کئے بغیر پی ٹی آئی کے ان ووٹروں کو اپنا تجویز اور تائید کنندہ بنایا جو اس حلقے کے ووٹر ہی نہیں تھے۔ وہ حلقے کے بارڈر پر رہتے تھے اور ان کے ووٹ این اے 130 میں درج تھے۔ یہ بات الیکشن لڑنے والا کوئی بھی امیدوارسادہ سا ایس ایم ایس کر کے معلوم کر سکتا ہے مگر یہ تصدیق صرف نظر ہو گئی۔ مسلم لیگ نون نے ان کے جمع کروائے ہوئے کاغذات کا تجزیہ کیا تو یہ غلطی پکڑ تے ہوئے عین موقعے پر اعتراض جڑ دیا۔ یہ قانون اتنا واضح اور پکا ہے کہ اس پر کوئی ابہام ہی نہیں سو الیکشن کمیشن کے مقامی ذمے داران کے پاس اس کے سوا کوئی دوجا رستہ ہی نہیں تھا کہ وہ کاغذات مسترد کردیں۔
جمشید اقبال چیمہ سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے صرف ایک ہی کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔ تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ ہمیشہ سے الیکشن لڑنے والے کم از کم تین پیپرز ضرور جمع کرواتے ہیں اور اس کی وجوہات ایک سے زیادہ ہوتی ہیں کہ کسی ایک پیپر میں کوئی اگر کوئی غلطی رہ گئی ہے تو دوسرے میں وہ موجود نہ ہو۔ایک خدشہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کہیں ہمارا تجویز یا تائید کنندہ مخالف ہی نہ خرید لے سو تین یا پانچ پیپرز میں تجویز اور تائید کنندگان مختلف ہوتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے حلقے کے کارکنوں کے لئے اعزاز بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے پارٹی کے امیدوار کے تجویز اور تائید کنندہ بن رہے ہیں۔ ان سے تیسری غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو کورنگ کینڈیڈیٹ بنواتے ہوئے ان کے پیپرز پر بھی اپنی والی غلطی ہی دہرا دی۔ کورنگ کینڈیڈیٹ اس لئے ہوتا ہے کہ اگر پارٹی کا مرکزی امیدوار نااہل بھی ہوجائے تو اس کا متبادل موجود ہو مگر یہاں یہ آپشن بھی ساتھ ہی مسترد ہو گیا۔ اب کہنے والے کہتے ہیں کہ جمشید اقبال چیمہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سوچی سمجھی سازش کے تحت ہوا۔ دروغ بہ گردن راوی،شبیر سیال جو کہ پارٹی کے لاہور کے صدر رہے ہیں، ان سمیت دوسرے چاہتے ہی نہیں تھے جمشید اقبال چیمہ جیسا متحرک اور ارب پتی شخص ان کے حلقے میں آئے اور کامیاب ہو کر اس پر قبضہ جما لے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ وہ تمام اس حلقے سے ہمیشہ کے لئے فارغ ہوجاتے اور کبھی ٹکٹ کے حقدار نہ ٹھہرتے۔ ایک اور رہنما مبینہ طور پر چاہتے تھے کہ ان کے بیٹے کو ٹکٹ ملے لہٰذا جو کچھ ہوا یا جو کچھ کیا گیا اس میں سے سازش کے امکان کو باہر نہیں نکالاجاسکتا۔ جمشید اقبال چیمہ الیکشن ٹریبونل کے بعد ہائی کورٹ سے بھی اپنے حق میں فیصلہ لینے میں ناکام رہے کیونکہ کام ہی پکا ڈالا گیا تھا۔ سیاست بڑا ظالم کھیل ہے اس میں اپنے بھائیوں اور باپوں تک کو قربان کر دیا جاتا ہے جبکہ جمشید اقبال چیمہ تو اس حلقے میں اجنبی تھے اور اپنے کارکردگی کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کے لئے خطرہ تھے۔
مسلم لیگ نون والوں کا کہنا ہے کہ جمشید اقبال چیمہ نے جو کچھ کیا وہ خود جان بوجھ کر کیا مگر میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ میرے خیال میں انہیں الیکشن لڑنے کابہت شوق تھا اور ان کے لئے چند کروڑ روپے بھی اہمیت نہیں رکھتے جو وہ الیکشن میں خرچ کر دیتے۔ ان کے مخالفین یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر وہ الیکشن لڑ بھی لیتے تو ہار جاتے۔ یہ بات عمومی طور پر اس حلقے بارے کہی جاتی ہے کہ یہ نون لیگ کا گڑھ ہے۔ یہاں سے ماضی میں وحید عالم خان جیسے سیاسی کارکن کے علاوہ پرویز ملک اس کے باوجود منتخب ہوچکے ہیں کہ وہ اس حلقے میں امپورٹ کئے گئے تھے مگر انہوں نے اپنی ملنسار طبیعت سے کارکنوں کے دل جیت لئے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں سے زعیم قادری نے ایم پی اے ہونے کے بعد بغاوت کی تھی مگر جب الیکشن ہوئے تو قومی اسمبلی کے اس حلقے سے پورے دو ہزار ووٹ بھی نہ لے سکے۔ ایک شادی کی تقریب میں ایک تگڑے صوبائی وزیر سے کھلی ڈلی گپ شپ ہوئی، وہ یقین سے بھرے ہوئے تھے کہ پی ٹی آئی جیت سکتی ہے۔ میرے علم میں اضافہ ہوا کہ سرکار نے کوئی پندرہ، بیس ہزار نوکریاں اس حلقے میں پھینکنے کا پروگرام بنا لیا تھا اور اربوں روپوں کے ترقیاتی کاموں کا بھی پیکج منطور کر لیا تھا سو، ان کے مطابق، گذشتہ انتخابات میں ووٹوں کا فر ق ایسا نہیں تھا جسے دور نہ کیا جا سکتا۔ اس حلقے سے پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری امیدوار تھے جنہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اورصرف بارہ ہزار ووٹوں سے ناکام ٹھہرے تھے، اب وہ سینیٹر بن چکے ہیں۔
مسلم لیگ نون کے مخالفین کہتے ہیں کہ حلقے میں ترقیاتی کاموں کی صورتحال بہت بری ہے مگر وحید عالم خان، جو اس حلقے سے رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ بات باگڑیاں کے علاوہ باقی حلقے کے بارے درست نہیں۔ میں نے مسلم لیگ نون کے کارکنوں سے بھی حلقے کے مسائل بارے پوچھا تو اس علاقے کے لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے میں گیس نہیں، گلیاں بھی پکی نہیں، پانی بھی صاف نہیں آتا مگر دوسری طرف یہ بھی درست ہے مادر ملت روڈ کے ذریعے باگڑیاں کو ملا دیا گیا ہے اور اب وہ شہر کا حصہ ہے۔ نواز لیگ کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کے کاموں کے نتیجے میں ہی اس علاقے میں ایک مرلے کی قیمت چار لاکھ روپوں سے بڑھ کے دس لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے۔ بہرحا ل اس وقت اگر کوئی مقابلہ ہے تووہ نواز لیگ کے ساتھ پیپلز پارٹی کا ہے کیونکہ پی ٹی آئی نے جمشید اقبال چیمہ کے آؤٹ ہونے کے بعد پانچ دسمبر کو اپنے کارکنوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کر دی ہے۔ پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت راجا پرویز اشرف کر رہے ہیں۔ یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ پیپلزپارٹی اس حلقے سے جیت سکتی ہے مگر یہ ضرور دیکھا جائے گا کہ پی ٹی آئی کے میدان میں نہ ہونے کے بعد پی پی پی اپنے وہ کتنے ووٹر واپس لے سکتی ہے جو پی ٹی آئی میں چلے گئے تھے۔