اسلام آباد: وزیر خزانہ اسحاق ڈار کاکہنا ہے کہ پاکستان کسی صورت ڈیفالٹ نہیں کرے گا ۔وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اسلام آباد میں ایف بی آر میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معیشت کی بحالی ہمارا بڑا چیلنج ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ بجٹ کے حوالے سے آنیوالی تمام تجاویز کا خیرمقدم کرتے ہیں ۔ہمیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ 2017میں پاکستان دنیا کی 24ویں معیشت بن چکا تھا ۔ہم سب نے ملکر پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے ۔
ہماری ٹیم نے بے پناہ کوششیں کی ہیں ،آئی ایم ایف معاہدے کیلئے ہماری ٹیکنیکل ٹیم نے کام مکمل کرلیا ہے۔ پاکستان کے ڈیفالت کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔وزیر خزانہ نے کہا 2013 میں بھی اسی طرح کے مشکل حالات تھے۔ پیش گوئی کی گئی تھی پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا۔ کوئی ادارہ پاکستان کو قرض دینے کو تیار نہیں تھا، اس کے بعد پاکستان بہت تیزی کے ساتھ اس صورتحال سے باہر نکلا اور اب بھی حالیہ مشکل دور سے باہر نکلے گا۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے حوالے سے بھی ہماری ٹیم نے نویں جائزے کے لیے اپنا ٹیکنیکل کام پورا کرلیا ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ یہ جائزہ تین ماہ کی تاخیر سے شروع ہوا، میرے آنے سے پہلے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ یہ نومبر سے پہلے شروع ہوگا لیکن یہ پھر 31 جنوری سے شروع ہوا، تین مہینے کی یہ تاخیر تھی، ہم تمام پیشگی اقدامات مکمل کرچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام پیشگی اقدامات بورڈ میٹنگ سے پہلے ہوتے ہیں، سٹاف لیول ایگریمنٹ سے پہلے نہیں ہوتے، انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ جب ہم نے دسمبر کی سہہ ماہی کی کلوزنگ کی تو ہمارے بیرونی اکاؤنٹ میں 4 ملین ڈالر کمی آئی۔ معاہدے میں کچھ تاخیر ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف کا تخمینہ کچھ خاص کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی بنیاد پر تھی لیکن ہمیں نہ تو کوئی دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے، پاکستان بالکل ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔
اسحاق ڈار نے ایف بی آئی حکام نے کہا کہ آپ ہمیں ریونیو کلیکشن اور بجٹ میں بہتری کے حوالے سے تجاویز دیں، ان تجاویز میں جو بھی تجویز قابل عمل ہوگی، اس پر ہماری طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوگی کیونکہ ہم سب نے مل کر ملک کو اس بھنور سے نکالنا ہے۔ان کا کہنا تھا موجودہ حالات میں ایف بی آر کو کچھ مشکلات ہیں تو میں ان پر معذرت کرتا ہوں لیکن ان کی ذمے داری موجودہ اکنامک ٹیم پر نہیں ہے۔ اس آئی ایم ایف جائزے کو بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا، اس میں کچھ سٹرکچرل قسم کی تاخیر ہے ۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے ساڑھے پانچ ملین ڈالر ہم نے کمرشل بینکوں کو قرضوں کی ادائیگی کی ہے۔ جب چینی بینکوں نے دیکھا کہ انہوں نے تمام پیشگی اقدامات کرلیے، سارا ٹیکنیکل کام ہوگیا ، مدت کا کام ہفتوں میں کرکے ادائیگیاں کردیں تو انہوں نے ہمیں 2 ملین ڈالر قرض رول اوور کرکے واپس کیا۔