1960 کے اوائل میں ہمارے پنجاب (اور پاکستان) میں پانچ دریا تھے۔ آج وہ سکڑ کر صرف دو رہ گئے ہیں۔ ہمارے ہمسائے انڈیا میں بھی اضافہ آبادی زوروں پر ہے، اس لئے راوی، ستلج اور چناب کا پانی انڈیا نے روک کر اس پر ڈیم اور بیراج بنا لئے ہیں۔ ہمارے پاس صرف دو دریا باقی ہیں …… ایک جہلم اور دوسرا سندھ…… منگلا اور تربیلا کے بعد ہم نے کوئی تیسرا ڈیم تعمیر نہیں کیا۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اب 70برس بعد دیامر بھاشا ڈیم کا آغاز تو کر دیا گیا ہے لیکن اس کے نتائج سے مستفیض ہونے کے لئے ہمیں 5برس انتظار کرنا پڑے گا۔ مہمند ڈیم کی طرح کے چھوٹے ڈیم اور بجلی پیدا کرنے کے لئے تھرمل ذرائع کے بجائے ہائیڈرو اور سولر ذرائع کی طرف جانا پڑے گا۔
آبادی میں بے تحاشا اضافہ اور حکومت کی طرف سے اس حد درجہ اہم موضوع پر خاموشی خطرناک بلکہ ہیبت ناک ہے۔ گزشتہ حکومتوں نے چھانگا مانگا، چیچہ وطنی،کندیاں، میانوالی اور خوشاب / جوہرآباد کے ذخیرے ختم کر دیئے۔ پھر خیبرپختونخوا کے شمالی علاقوں میں ٹمبر مافیا کا بہت زیادہ ماتم کیا جاتا ہے۔ لیکن آج تک ہمارے میڈیا پر اس موضوع پر کوئی ڈاکیومنٹری نہیں بنائی گئی۔ چھانگا مانگا کے جنگل کو ہرا بھرا اور سرسبز دکھا کر بعد میں اس کے ٹنڈ منڈ درختوں اور تنوں کو دکھایا جا سکتا ہے۔ گھنے جنگل کی جگہ چٹیل میدان بھی دکھایا جا سکتا ہے اور اس پراسس کے دوران بتدریج درختوں کی بے رحمانہ کٹائی کی دستاویزی فلم بنانے میں کوئی زیادہ تکنیکی یا مالی محنت بھی نہیں کرنا پڑے گی۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک تقریب میں گلیشیروں کے پگھلنے کا ذکر کیا۔ یہ بھی کوئی نئی خبر نہیں۔ ایک طویل عرصے سے پاکستان اس گلیشیائی پگھلاہٹ کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کراتا آیا ہے۔ لیکن اس کے اصل ’خالق اور موجد‘ تو خود مغربی ممالک ہیں۔ انہوں نے جوہری بجلی پیدا کرنے کے جو کارخانے لگا رکھے ہیں ان سے بے تحاشا اور بے اندازہ گرین گیسوں کا نکاس کوئی نئی خبر نہیں لیکن وہ اقوام ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتیں۔
پاکستان میں اسی گلیشیروں کے پگھلاؤ کے سبب دریاؤں اور نہروں میں جو پانی کی کمی ہو گئی ہے وہ سال بسال بڑھتی جا رہی ہے۔ سندھ اور پنجاب کی حکومتیں ایک دوسرے پر الزام لگا رہی ہیں کہ ان کا پانی روک کر ان سے زیادتی کی جا رہی ہے۔ یہ زیادتی بھی آپ دیکھیں گے کہ سال بسال بڑھتی جائے گی۔ ایک وقت وہ بھی آئے گا کہ یہ ’زیادتی‘ ناقابلِ برداشت ہو جائے گی۔ اس وقت شائد دیامر بھاشا اور مہمند ڈیموں کی اہمیت اور افادیت کا کچھ اندازہ پاکستانی قوم کو ہو سکے اور
ساتھ ہی عمران خان کے اس وژن کا بھی کہ جو آج شاید بعض لوگوں کو دور کی کوڑی معلوم ہوتا ہے۔ ماضی میں واپڈا اور پاکستان کے کئی اور اداروں نے اس موضوع پر بہت دہائی مچائی لیکن کسی نے بھی اس بپتا پر زیادہ کان نہ دھرا…… اب شائد ایک کے بجائے دونوں کان دھرنا پڑیں!
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ برف کم ہو گی تو پانی کم ہو گا اور پانی کم ہوگا تو کھیت کھلیان سوکھ جائیں گے۔سابق وزیراعظم عمران خان نے زمان پارک (لاہور) میں اپنے طالب علمی کے ایام یاد کئے اور کہا کہ لوگ اس وقت نہر کا پانی پینے میں کوئی عار نہیں سمجھتے تھے لیکن اب تو نلکوں کا پانی اتنا آلودہ ہو چکا ہے کہ اسے دیکھ کر پینے کو دل نہیں کرتا۔
پاکستان میں زیر زمین پانی کے ذخائر میں روز بروز ہوتی ہوئی کمی نے زمین پر رہنے والوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اسلام آباد سے جاری ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق 2025ء میں زیرِ زمین پانی کے ذخائر اس حد تک کم ہو جائیں گے کہ چرند و پرند تو دُور کی بات، انسانوں کو بھی پینے کے لیے پانی میسر نہیں آئے گا۔زیرِ زمین پانی میں کمی کا سامنا صرف پاکستان ہی کو نہیں،دنیا بھر کو ہے۔جس سے سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ دنیا میں اب جنگیں زمین پر نہیں،پانی پر ہوا کریں گی۔یہ ایسی صورت حال ہے،دنیا جس سے آنے والی دو،تین دہائیوں میں دو چار ہونے والی ہے۔ کھیت، فصلیں اجڑ جائیں گی۔ چرند اور پرند پانی نہ ملنے سے مرنے لگیں گے۔جبکہ انسانوں کو بھی ایک گھونٹ پینے کے لیے پانی میسر نہیں آئے گا۔ آنے والے دنوں میں یہ بڑی خوفناک صورتِ حال ہو گی۔میں نہیں جانتا حکومت پاکستان نے اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار کی ہے یا نہیں،لیکن آثار بتا رہے ہیں،معاملہ اتنا آسان نہیں، نہ اسے آسانی سے لیا جانا چاہیے تھر اور چولستان سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ خوف کا احساس دلاتی ہیں۔ وہاں خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔پانی نہ ہونے کے سبب وہاں قحط سالی کا سماں ہے۔ پانی نہ ملنے کے باعث اب تک سیکڑوں پالتو جانور ہلاک ہو چکے ہیں۔جن میں بھیڑ بکریوں اور گائے،بھینسوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ انسانوں نے اس خوف اور ڈر سے تھر اور چولستان سے وسیع پیمانے پر نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ وہ اپنی اور اپنے پالتو جانوروں کی جانیں بچانے کے لیے ایسے علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیں جہاں پانی کسی نہ کسی شکل میں موجود اور دستیاب ہے۔ یہ بڑی خراب اور تشویش ناک صورت حال ہے لیکن شاید حکومت کے بس میں کچھ نہیں۔اگر زیرِ زمین پانی کے ذخائر ہی نہیں ہوں گے تو کیسے ممکن ہے کہ حکومت نایاب پانی والے علاقوں کو پانی مہیا کر سکے۔اسلام آباد اور لاہور کے ایوانوں میں براجمان مقتدر اشرافیہ کو خبر ہونی چاہیے کہ چولستان پیاسا ہے جبکہ روہی پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارا میڈیا بھی انسانی حیات سے جڑے ان معاملات کو مسلسل نظر انداز کرکے کبھی عمران خان اور کبھی مریم نواز کے جلسوں کو فوکس کر رہا ہے۔ لندن میں ہونے والی ن لیگی قیادت کی سرگرمیوں کو اپنی خبروں اور ٹاک شوز کا موضوع و محور بنا رہا ہے، کہیں اس نے عامر لیاقت اور اس کی بیوی دانیہ کے مابین ازدواجی تعلقات کی خرابی اور طلاق کے معاملات کو اپنی خبروں میں سر فہرست رکھا ہوا ہے لیکن ہم بھول رہے ہیں کہ پانی اس وقت سب سے بڑا مسئلہ اور نیشنل ایشو ہے۔ ایک چھوٹی سی خبر آئی تھی کہ تھر اور چولستان بنجر ہو گئے ہیں۔ ایک فوٹیج میں مرتے ہوئے پالتو جانور بھی دکھائے گئے تھے جو بہت بڑی تعداد میں تھے۔ ایک فوٹیج میں نے ایسی بھی دیکھی جس میں پانی کے بڑے ٹینکر چولستان میں پہنچے ہوئے ہیں اور دو درد مند انسان ان ٹینکروں کے ذریعے مویشیوں کے ایک بڑے ریوڑ کو پانی فراہم کر رہے تھے جبکہ پانی کو ترسے ہوئے یہ مویشی پانی سے سیراب ہو رہے تھے۔ تھر اور چولستان کی حقیقی صورت حال کیا ہے۔ یہ کوئی میڈیا ٹیم ہی وہاں جا کر دیکھ سکتی اور صورت حال کی پوری منظر کشی کر سکتی ہے۔ یہ دیکھنا اور دکھانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ حکومت کی آنکھیں کھل سکیں،وہ دیکھ اور فیصلہ کر سکے کہ ہمیں ایک حکومت کی حیثیت سے تھر اور چولستان میں کیا کرنا ہے۔اس سے پہلے کہ کوئی بڑا انسانی المیہ جنم لے۔ہمیں ابھی سے کوئی پیش رفت کرنا ہو گی اور ہنگامی بنیادوں پر تھر اور چولستان میں پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا۔داؤ پر لگی انسانی زندگیوں کو بچانا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ہمیں اس سے کسی طرح بھی پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے۔ یہاں ہم نے تھر اور چولستان کی بات کی۔ کراچی جیسے شہر میں بھی کافی عرصے سے پانی کی شدید قلت ہے۔بعض علاقے تو پانی سے اس قدر محروم ہیں کہ وہاں ٹینکروں کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا اور اْسے بیچا جاتا ہے۔جن سرکاری نلکوں میں پانی آتا ہے وہاں پانی لینے والوں کی لمبی لمبی قطاریں ہوتی ہیں۔پنجاب کے بھی بیشتر علاقوں میں یہی صورت حال ہے۔ سندھ اور بلوچستان سے بھی پانی کے حوالے سے جو خبریں آرہی ہیں وہ کافی حوصلہ شکن ہیں۔ ہمارے بعض دریاؤں اور نہروں میں پانی نہیں۔ ہمارے ہاں اگر ڈیم بن جائیں جن میں ہم برسات اور گلیشیئر پگھلنے سے جمع ہونے والے پانی کو ذخیرہ کر لیں تو آب پاشی کے نظام میں نا صرف بہتری آسکتی ہے بلکہ ہم اس کے ذریعے سستی بجلی بھی پیدا کر سکتے ہیں۔لہٰذا پانی کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حکومتی ایجنڈے پر ہونا چاہیے۔