نیویارک:امریکا ریاست ٹیکساس میں موجود پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروق نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موت سے متعلق افواہوں کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دے دیا۔
ہیوسٹن میں موجود پاکستانی قونصلیٹ جنرل کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروق نے کارس ویل، ٹیکساس میں فیڈرل میڈیکل سینٹر (ایف ایم سی ) میں موجود جیل میں عافیہ صدیقی سے 2 گھنٹے تک ملاقات کی۔
اس ملاقات کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موت سے متعلق گردش کرنے والی افواہیں دم توڑ گئی اور پاکستانی قونصل جنرل کی جانب سے ان افواہوں کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا گیا۔بیان میں بتایا گیا کہ گزشتہ 14 ماہ کے دوران پاکستانی قونصل جنرل 4 مرتبہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کرچکی ہیں۔
واضح رہے کہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ڈاکٹر عافیہ کی موت سے متعلق خبریں گردش کر رہی تھی، جن کی کسی ذرائع سے تصدیق نہیں ہوئی تھی۔اس بارے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والے بیان میں کہنا تھا کہ وہ اپنی بہن کی زندگی اور صحت سے متعلق کسی خبر کی تصدیق نہیں کرسکتیں، کیونکہ اس بارے میں انہیں حکومت پاکستان، وزارت خارجہ اور امریکی جیل حکام نے کچھ نہیں بتایا۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے آن لائن قیدیوں کے اسٹیٹس سے متعلق بتایا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا اسٹیٹس زندہ لکھا ہوا ہے اور اگر کسی قیدی کا اسٹیٹس تبدیل کیا جاتا ہے تو امریکی قوانین کے مطابق اہلخانہ کو معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ کی ہمشیرہ نے ڈاکٹر فوزیہ نے مزید بتایا کہ ان کا گزشتہ 2 سالوں سے عافیہ صدیقی سےکوئی رابطہ نہیں ہے اور ہزار کوششوں کے باوجود بھی پاکستانی اور امریکی حکام سے انہیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کی کہانی 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' سے جڑی کہانیوں میں سب سے اہم ہے، جو مارچ 2003 میں اُس وقت شروع ہوئی جب القاعدہ کے نمبر تین اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کو کراچی سے گرفتار کیا گیا۔
خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد مبینہ طور پر 2003 میں ہی عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی سے لاپتہ ہوگئیں۔
عافیہ صدیقی کو لاپتہ ہونے کے 5 سال بعد امریکا کی جانب سے 2008 میں افغان صوبے غزنی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔امریکی عدالتی دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 'عافیہ صدیقی کے پاس سے 2 کلو سوڈیم سائینائیڈ، کیمیائی ہتھیاروں کی دستاویزات اور دیگر چیزیں برآمد ہوئی تھیں، جن سے عندیہ ملتا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہیں'۔
جب عافیہ صدیقی سے امریکی فوجی اور ایف بی آئی عہدیداران نے سوالات کیے تو انہوں نے مبینہ طور پر ایک رائفل اٹھا کر ان پر فائرنگ کر دی، جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوگئیں، جس کے بعد انہیں امریکا منتقل کر دیا گیا جہاں 2010 میں انہیں اقدام قتل کا مجرم قرار دے کر 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔