اسلام آباد: وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آج قومی اسمبلی نے تاریخی بل پیش کیا ہے، اس کے نتائج پاکستان کیلئے بڑے اچھے ہوں گے۔
قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ خورشید شاہ، شاہ محمود قریشی، فاروق ستار اور دیگر ارکان کا دل سے مشکور ہوں جنہوں نے بل پاس ہونے میں ساتھ دیا، بہت سے پیچیدہ مسائل تھے جو حل ہوئے۔ جو تقریر ہوئی اس میں ایسی باتیں کی گئیں جن کا بل سے کوئی تعلق نہ تھا، یہ سب چیزیں ہاؤس میں زیر بحث آئیں، عوام بھی جانتے ہیں کسی کو منی لانڈر کہنا اخلاق کے تقاضوں کا متقاضی نہیں۔ یہ فیصلہ جولائی کے عوام انتخابات میں کریں گے، تمام جماعتوں نے اس بل کیلئے اتفاق کیا، اس بل میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس بل کو الیکشن کے التوا کا ذریعہ نہ بنایا جائے، 31 مئی تک حکومت قائم رہے گی، 60 دن تک الیکشن ضرور ہوگا، آج بھی اس وعدے پر قائم ہیں۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ یہ ایک پراسس کی انتہا نہیں ابتدا ہے، ہم نے فاٹا کے عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہے، جو قانونی معاملات ہیں وہ تو ہوں گے، فاٹا میں جو ڈویلپمنٹ کی کمی ہے اسے پورا کیا جائے۔ تمام جماعتیں فاٹا کی ڈویلپمنٹ کیلئے مل کر فیصلہ کریں۔ جو سہولتیں پاکستان کے دوسرے شہروں کو حاصل ہیں فاٹا کو بھی وہ حاصل ہوں گی۔ اگر ہم فاٹا کے عوام کا اعتماد بحال رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان کامیاب ہوگا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بہت سے پیچیدہ ایشو اس ملک کے اندر موجود ہیں، جو بھی پیچیدہ قومی مسائل ہیں وہ مل بیٹھ کر حل کئے جائیں۔ جو سیاست ملک میں آج جنم لے رہی ہے وہ پاکستان کیلئے بہتر نہیں۔ پاکستان میں نفرت اور بدتمیزی کی سیاست کی کوئی جگہ نہیں۔ جس طرح آج ہم نے مل کر قومی ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا ہے یہی مظاہرہ آئندہ بھی کرنا ہوگا۔ پاکستان انتخابات میں تاخیر کا متحمل نہیں ہوسکتا، ووٹ کو عزت دو کے نعرے سے الیکشن میں جائیں گے، فاٹا کے جن علاقوں کو ٹیکس کی چھوٹ حاصل تھی وہ 5 سال تک انہیں حاصل رہے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس بار پانی کا مسئلہ بڑا پیچیدہ ہے، اس بار سنو فال اپنے معمول سے 60 فیصد کم ہوئی ہے، پچھلے سال پانی کا فلو 76 ہزار کیوسک تھا، آج 12 ہزار کیوسک ہے۔ تربیلا میں اس وقت ایک فیصد پانی موجود ہے، منگلا میں اس وقت 2 فیصد پانی موجود ہے، ٹوٹل اعشاریہ 3 فیصد پانی اس وقت موجود ہے۔ ارسا میں 4 صوبائی ممبران ہوتے ہیں ایک قومی ممبر ہوتا ہے، ارسا میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، پانی کے حوالے سے سندھ کو اختلاف ہے۔ صوبہ سندھ اس حوالے سے سی سی آئی میں جاسکتا ہے، جس دن چاہیں سی سی آئی کی میٹنگ رکھ لیں میں میٹنگ بلا لوں گا۔