ہمارے محترم وزیراعظم پاکستانی سسٹم اور اِس سسٹم کے شکارلوگوں کے رویوں اور کردار پر تنقید کرتے ہوئے اکثر برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں، …اگلے روز کسی نیوز چینل پر ایک اینکر برطانیہ کے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے بتارہے تھے وہاں ارکان پارلیمنٹ اپنی جماعت کی پالیسیوں پر کُھل کر اظہار خیال اور اختلاف کرسکتے ہیں، ووٹ بھی دے سکتے ہیں، البتہ فرق یہ ہے اُن پر بکنے کا الزام نہیں لگتا، وہاں کسی رُکن پارلیمنٹ کے بارے میں ہلکا سا یہ شبہ نہیں کیا جاسکتا اُس نے پیسے وغیرہ پکڑ کر ووٹ بیچا ہے، اِس کے برعکس پاکستان میں کوئی رُکن قومی یا صوبائی اسمبلی اپنی پارٹی یا پارٹی سربراہ سے کوئی اختلاف کرے، اُس کی کسی پالیسی کے خلاف ووٹ دے وہ فوراً اِس الزام کی زد میں آجاتاہے کہ یہ عمل اُس نے پیسے لے کر کیاہے، اِس حوالے سے کئی بار کچھ شواہد بھی سامنے آئے، جس سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی کہ اپنی جماعت کے سربراہ یا جماعت کی پالیسیوں کے خلاف چلنے والے یا ووٹ دینے والے یہ کام صرف پیسے لے کر کرتے ہیں، پاکستان کے اِس سیاسی حمام میں تقریباً سب جماعتیں ننگی ہیں، بہت کم سیاستدان ہیں جنہوں نے کبھی پارٹی نہیں بدلی۔ آج ہمارے محترم وزیراعظم اپنے ہر جلسے ہرتقریر میں اپنے ایسے ارکان اسمبلی کو ایکسپوز کرتے ہوئے، اُنہیں بُرا بھلا کہتے ہوئے، اُنہیں بددعائیں دیتے ہوئے، اُنہیں بے عزت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو بے شمار وجوہات کی بناء پر اب اُن کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں، خان صاحب کا خیال ہے اُن کا ساتھ نہ دینے کی واحد وجہ یہ ہے ان ارکان اسمبلی نے اُن کی مخالف سیاسی جماعتوں سے پیسے پکڑے ہیں، دوسری جانب یہ ارکان اسمبلی خان صاحب کے اِس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہیں، ایک دو منحرف ارکان قومی اسمبلی نے تو باقاعدہ قرآن پاک ہاتھ میں پکڑ کر اِس الزام کی تردید کی ہے، وزیراعظم کو اِس کے جواب میں قرآن پاک ہاتھ میں پکڑ کر اِس الزام کوثابت کرنے کی ضرورت اِس لیے نہیں وہ یہ سمجھتے ہیں سینکڑوں یوٹرن لینے کے باوجود لوگ اُن کی ہربات پر آنکھیں بند کرکے یقین کرلیتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں بحیثیت وزیراعظم اُن کا یہ ’’حق ‘‘ بنتا ہے لوگ اُن کی ہربات پر یقین کریں، … اپنے جن اراکین قومی اسمبلی پر بک جانے کا وہ الزام لگارہے ہیں وہ پچھلے ایک ڈیڑھ برس سے پارٹی پالیسی سے اختلاف کررہے تھے، وہ اپنے کچھ مطالبات پورے نہ ہونے پر نالاں تھے، البتہ وزیراعظم کے اُن پر بک جانے کے الزام کو اِس حوالے سے کچھ تقویت ضرور ملی کہ اُن میں سے کچھ ارکان اسمبلی سندھ ہائوس میں پائے گئے، جس کا مطلب تھا اُنہیں اُس زرداری نے قابو کیا ہوا ہے جو خریدوفروخت کا ماہر ہے، سیاست میں خریدوفروخت کے تقریباً سب ہی ماہر ہیں، زرداری بے چارہ کچھ زیادہ ہی بدنام ہے۔ ممکن ہے کچھ خریدوفروخت وہ کرتا بھی ہو، مگر بے شمارپیچیدہ سیاسی معاملات کو وہ اپنے سیاسی تجربوں اور سیاسی سوجھ بوجھ سے بھی حل کرلیتا ہے، شاید اِسی لیے جاوید ہاشمی نے ایک بار کہا تھا ’’زرداری کی سیاست سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی کرنی چاہیے‘‘…پاکستان میں سیاست اب محض ایک گندہ کھیل ہے، سیاست وحکومت سے اگر لوٹ مار نکال دی جائے، ذاتی مفادات نکال دیئے جائیں، ناجائز اختیارات کا اندھا دھند استعمال نکال دیاجائے، بھاری بھاری تنخواہیں ومراعات نکال دی جائیں، خوشامدیوں پر پابندی لگادی جائے، کوئی ایسا قانون بنادیا جائے کہ کوئی وزیراعظم اگر ایک سال تک کسی شعبے میں کوئی کارکردگی نہ دیکھا سکے اُسے فوری طورپر نہ صرف عہدے سے الگ کردیا جائے، بلکہ اُس کے بعد پھر کبھی وہ اِس عہدے کے قابل نہ رہے، علاوہ ازیں ایک برس تک جو تنخواہیں ومراعات اُس نے لی ہیں وہ سب واپس کرنے کا وہ پابند ہو، وہ سائیکل پر دفتر جائے۔ اُس کے پروٹوکول قافلے میں ڈیڑھ دوسوگاڑیاں نہیں ہوں گی، بشمول خان صاحب جتنے سیاستدان ہیں سیاست کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیں گے … جہاں تک کچھ اراکین اسمبلی کے ایک بار پھر لوٹا بننے کا معاملہ ہے سیاست میں یہ سلسلہ کوئی آج متعارف نہیں ہوا، آج صرف یہ ہوا ہے لوٹوں کے حوالے سے پی ٹی آئی کے رویے میں زیادہ شدت شاید اس لیے آگئی ہے کہ اِس کے نتیجے میں اب اُنہیں اپنی حکومت رخصت ہوتے ہوئے نظر آرہی ہے، اپنی جماعت کے چند ’’لوگوں‘‘ کے حوالے سے وہ تشویش کا شکار ہے، مگر اصل تشویش یہ ہے اگر اُن کی ’’عادی لوٹی اتحادی جماعتیں‘‘ ایک بار پھر ’’لوٹی‘‘ ہوگئیں پھر اُن کا کیا بنے گا ؟… اِس سے پہلے خان صاحب اور پی ٹی آئی کے لیے حالات جب ذرا سازگار تھے، اُنہیں اپنی حکومت گرنے کا کوئی خدشہ نہیں تھا تب وزیراعظم عمران خان نے خود اپنی ایک تقریر میں فرمایا تھا ’’اگر ہماری جماعت کے ارکان اسمبلی مجھ پر عدم اعتماد کردیں میں گھرچلا جائوں گا‘‘… اب اُن کا رویہ، اُن کی بولیاں اس کے بالکل برعکس ہیں، شاید اِس لیے کہ کچھ غیبی قوتیں یا حمایتی قوتیں اب ’’نیوٹرل‘‘ ہوچکی ہیں۔ ان حالات میں ارکان اسمبلی کی اُنہیں اشد ضرورت ہے، جب کچھ ’’لوٹے‘‘ خان صاحب کی پارٹی میں شامل ہورہے تھے تب وہ شاید ’’ وضو‘‘ کرنے والے ’’پاک لوٹے‘‘ تھے، اب جبکہ وہ خان صاحب کی پالیسیوں کے خلاف ہیں، اور خدشہ یہ ہے وہ اُنہیں اعتماد کا ووٹ دینے سے گریز کریں گے تو اچانک وہ استنجا کرنے والے ’’ناپاک لوٹے‘‘ ہوگئے ہیں ،…اگر خان صاحب کی کچھ سابقہ ’’اے ٹی ایم مشینیں‘‘ اُن کی حکومت بنانے کے لیے لوٹے خریدنے کا اہتمام کریں تو یہ ’’عین عبادت‘‘ ہے، اور اگریہ کام کوئی اُن کی حکومت گرانے کے لیے کرے تو یہ ایسا ’’گناہ کبیرہ‘‘ ہے جس کی سزا اللہ تو پتہ نہیں دیتا ہے یا نہیں، خان صاحب یہ سزا دینے کے اس لیے پابند ہیں کہ اب جبکہ اُنہوں نے ملک کا سارا خراب سسٹم مکمل طورپر ٹھیک کردیا ہے، ہر شعبہ ہرادارہ تیر کی طرح سیدھا ہوگیا ہے، ملک میں ہر جانب دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگی ہیں، کرپشن کا نام ونشان مٹ گیا ہے، ایسے میں سیاست کی غلاظت یعنی ’’لوٹوں‘‘ کو اگر ختم نہ کیا گیا، اُنہیں سزائیں نہ دی گئیں، اُن کا جینا حرام نہ کیا گیا، تو لوگ کیا کہیں گے خان صاحب نے اتنے بڑے بڑے ناممکن کام کردکھائے، بس ایک ’’لوٹے‘‘ ختم نہیں کرسکے؟ حیرانی بس یہ ہے کوئی ’’لوٹے باز‘‘ لوٹے ختم کیسے کرسکے گا ؟؟
لوٹے باز!
09:19 AM, 24 Mar, 2022