اپنے 36 سالہ صحافتی کیریئر میں سیاسی پارٹیاں بنتے بگڑتے، وفاداریاں تبدیل ہوتے، ضمیر بکتے، اسمبلیاں ٹوٹتے بنتے، حکومتیں آتی جاتی دیکھیں لیکن نہ دیکھ سکا تو عوام کی حالت میں تبدیلی۔ اس دوران ضمیر فروش پارلیمینٹیرین کا ذاتی بنک بیلنس بڑھتے دیکھا، جائیدادیں اور پیٹ پھیلتا دیکھا لیکن وطن عزیز کی معیشت کو دگرگوں اور عوام کی حالت ابتر ہی دیکھا۔ اس سارے کھیل میں ضمیر فروشوں یا لوٹوں کا ہمیشہ بنیادی کردار رہا۔ بعض تو تین تین بار ضمیر فروشی کر چکے ہیں اور ایک بار پھر حلالے کے لیے تیار ہیں۔
لوٹا واحد صنف ہے جس میں جنسی تفریق نہیں اور مرد و زن کے لیے اجتماعی طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ اگر ماضی قریب کی پارلیمانی تاریخ دیکھی جائے تو 50 کے قریب پارلیمانی لوٹے یا الیکٹ ایبلز ادھر سے ادھر چمک کی بنا پر لڑھکتے دیکھے۔ 35 سال سے یہ ضمیر فروش لوٹے تقریباً ہر جماعت میں شریک اقتدار رہے اور ان کی مانگ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے فارمولے کے تحت سیاسی جماعتوں کی ضرورت بنتی رہی۔ سیاسی جماعتیں بھی تین تین طلاقوں کے باوجود انہی لوٹوں سے رجوع کرتی رہیں۔ کل تک جو کسی سیاسی جماعت یا اس کی لیڈرشپ کا سب سے بڑا اور بدتمیزی کی حد تک ناقد تھا یا سیاسی جماعت اس کی شکل دیکھنے سے ہی نالاں تھی جب بھی حالات نے کروٹ لی تو اسی جماعت میں دوبارہ وارد ہوا یا جماعت نے اسے گلے لگایا تو دونوں کے داغ اس طرح دھلے کہ سفیدی بھی شرمندہ ہونے لگی۔ کہتے ہیں مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا لیکن بے ضمیر لوٹے اور سیاسی جماعتیں باہمی رضا مندی سے اسی سوراخ میں انگلی دیتے ہیں جہاں سے ڈسے جا چکے ہوتے ہیں۔ اور یہ عمل بوقت ضرورت بار بار دہرایا جاتا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی عظمیٰ بخاری نے جتنے لتے مسلم لیگ ن کی قیادت بشمول نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز کے لیے ہیں اس کی اور کوئی مثال نہیں۔ جب مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے با امر ’’مجبوری‘‘ انہیں پارٹی میں قبول کیا تو کہا تھا کہ امید ہے کہ آپ میڈیا میں ہمارا دفاع بھی اسی طرح کریں گی جس طرح ماضی میں ہم پر تنقید کرتی تھیں۔ اس پر موصوفہ شرمندگی سے سر جھکائے بیٹھی رہیں۔ آج کل موصوفہ جس شدت سے نواز شریف اور محترمہ مریم نواز کا دفاع کرتی ہیں مجھے ڈر ہے کہ کبھی بھی پانسہ پلٹا تو ان کا بیانیہ کیا ہو گا۔ البتہ شہباز شریف یا حمزہ سے دور ہی رہتی ہیں۔ خود تو بڑے بڑے دعوے کرتی رہتی ہیں لیکن ایک ٹی وی پروگرام میں حمزہ شہباز کے ترجمان عمران گورایہ کے حوالے سے
ان کے وزیر اعلیٰ بننے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں تو یہاں تک کہہ دیا کہ حمزہ کی وزیر اعلیٰ بننے کی ان کی ذاتی خواہش ہو سکتی ابھی پارٹی میں فیصلہ نہیں ہوا۔ واضح رہے کہ عظمیٰ بخاری بھی پارٹی کی ترجمان ہیں۔ یہ ایک مثال ہے اور اس طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ فیصل آباد کے راجہ ریاض نواز شریف اور شہباز شریف کو جن القابات سے نوازتے رہے ہیں ان کو دوبارہ لکھنا تو کیا سوچ کر ہی گھن آتی ہے انہوں نے بھی مسلم لیگ ن کی ٹکٹ ملنے کی خوشخبری سنا دی ہے۔
آج کل پھر لوٹوں کی چاندی ہے اور شاید یہ پہلا موقع ہے کہ لوٹے خود کو برائے فروخت کا لیبل لگا کر پیش کر رہے ہیں لیکن خریدنے والے بھی ماضی کے تجربے کے پیش نظر ٹھوک بجا کر دیکھ رہے ہیں۔ دو ماہ پہلے نصف درجن ایسے لوٹے جو تین تین بار حلالہ کر چکے ہیں ایک بار پھر رجوع کے چکر میں ہیں۔ ایک شادی کے موقع پر مجھے ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے ’’ساڈی وی چھوٹے میاں صاحب نال گل کرادیو اسی استعفیٰ وی دین تے تیار ہاں‘‘۔ میں نے ان سے کہا، کوئی شرم کوئی حیا ہے۔ کہنے لگے، سیاست میں ضرورت اور موقع دیکھتے ہیں شرم حیا نہیں۔ مجھے علم ہے کہ ان میں سے چند نے ماضی بعید میں نوٹوں سے بھرے بیگ، زمین کی لیز اور کچھ ٹھیکوں کے بدلے وفاداریاں بدلی تھیں اور آج پھر بہتی گنگا سے ہاتھ گندے کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے جانتے ہیں کہ اس وقت بھی میں لوٹا کریسی کے خلاف تھا اور آج بھی اس شدت سے کہیں زیادہ اس کا مخالف ہوں۔ اس سارے قضیے میں لطیفہ یہ ہے کہ انہی لوٹوں کے ہاتھوں ماضی میں ہزیمت کا نشانہ بننے والے کچھ لیگیوں سے بات کی تو بجائے مذمت کے کہنے لگے ’’کدھر نیں تے کون نیں‘‘۔ موجودہ لوٹا گردی کی لہر سے لگتا ہے کہ ہمارے وطن کی حالت نہیں بدلنے والی اور ہمارا نظام اسی خرید و فروخت کی مرہون منت رہے گا اور عوام یوں ہی تماشا بنتے رہیں گے۔
لوٹوں کی بڑھتی تعداد کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آیا۔ وہ کچھ یوں ہے کہ کسی شہر میں واقع پاگل خانے سے چوکیداروں کی لاپروائی کی بنا پر پاگل خانے کے کھلے ہوئے دروازے سے موقع پا کر 423 پاگل فرار ہو گئے۔ شہر کی سڑکوں پر پاگلوں نے اودھم مچا دیا، بد نظمی اور ہڑبونگ مچ گئی۔ ہسپتال کی طرف سے شہر کی انتظامیہ کو اطلاع ملی۔ ماہرین مسئلے کے حل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ فوری طور پر ایک بڑے ماہر نفسیات کو بلوا لیا گیا۔ ماہر نفسیات نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے فوراً ایک سیٹی منگوائی۔ ہسپتال کے عملے اور انتظامیہ کے کچھ لوگوں کو چھکڑا بنا کر اپنے پیچھے لگایا گاڑی بنائی اور وسل بجاتے چھک چھک کرتے سڑک پر نکل آیا۔ ماہر نفسیات کا تجربہ کامیاب رہا۔ سڑک پر چلتے پھرتے مفرور پاگل ایک ایک کر کے گاڑی کا حصہ بنتے گئے۔ شام تک ماہر نفسیات ڈاکٹر صاحب سارے پاگلوں کی گاڑی بنا کر ہسپتال لے آئے۔ انتظامیہ نے پاگلوں کو واپس اُن کے وارڈز میں بند کیا اور ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ مسئلہ شام کو اُس وقت بنا جب پاگلوں کی گنتی کی گئی تو 612 پاگل شمار ہوئے جبکہ ہسپتال سے صبح کے وقت صرف 423 پاگل فرار ہوئے تھے۔ یہی صورتحال اپوزیشن کو درپیش ہے۔ اب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو دیکھنا ہو گا کہ کتنے لوٹوں کو حلالہ کے لیے واپس لینا ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر کہیں گھر کے برتن ہی نہ ٹوٹ کر بکھر جائیں اور کیا لوٹوں سے حلالے کے لیے بھی اتنے لوگ دستیاب ہوں گے؟
کالم کے بارے میں اپنی رائے وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔