23 مارچ تجدید عہد کا دن ہے اور ہر سال ہم یہ دن انتہائی جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ فوجی پریڈ ہوتی ہے ثقافتی فلوٹس اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ ہم یہ دن مناتے کیوں ہیں اس کو ہم بھول جاتے ہیں۔ وہ جمہوری جدوجہد جس کے ذریعے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا اس کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں بولا جاتا۔ قرارداد پاکستان کی بات ہوتی ہے مگر اس قرارداد میں کیا ہے اس پر کوئی بات نہیں ہوتی اور اس قرارداد میں کس طرح کے سیاسی نظام کی بات کی گئی تھی اس پر بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ اس دن کو ہم یوم پاکستان کہتے ہیں۔ اسے یوم جمہوریہ بھی کہنا چاہیے لیکن کیسے کہا جائے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی یہاں جمہوریت نہیں پنپ سکی۔ جمہوری روایات مضبوط نہیں ہو سکیں۔ ہم جمہوریت اور جمہوری اقدار کو اپنی مرضی کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ پوری دنیا میں ملک ایک تماشا بن کر رہ گیا ہے۔
اس ملک کے آئینی ادارے اپنے اپنے اختیارات کے لیے آئین کا حلیہ بگاڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ایک بار پھر آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔ اب سپریم کورٹ عدم اعتماد کے طریقہ کار کی تشریح کرے گی۔ کیا حکومت کو علم نہیں کہ آئین کیا کہتا ہے ایسے میں اس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی اس کی دو ہی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ اپنے لیے مزید وقت حاصل کرنا، دوسرا عدالت کے ذریعے کوئی چور دروازہ تلاش کرنا۔ اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تین صفحات پر مشتمل خط نے ان خدشات کو مزید مستحکم کر دیا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے خط میں جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا جواب آنا ضروری ہے اور جن خدشات کا اظہار کیا گیا انہیں دور کرنا فاضل چیف جسٹس کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ صدارتی ریفرنس کے دائر کرنے سے پہلے لارجر بنچ کی تشکیل بالکل اسی طرح ہے جس طرح حکومت کہہ رہی ہے کہ منحرف ہونے والے اراکین کو ووٹ سے پہلے ہی سزا سنا دی جائے۔ ویسے کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ آرٹیکل 63 اے میں کوئی ابہام موجود ہے۔ کوئی مفہوم سمجھ نہیں آ رہا خود اٹارنی جنرل 63 اے کی اس تعریف کو مانتے ہیں جو سب کے نزدیک قابل قبول ہے۔ اس کے علاوہ پارلیمانی جمہوریتوں کی روایات موجود ہیں اور یہ روایات دستور کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود حکومت اپنی مرضی کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں چلی گئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خط سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر لارجر بنچ کی تشکیل کے حوالے سے بحث کا آغاز ہو چکا ہے مگر ہم یہی سمجھ رہے تھے کہ کچھ لوگ خواہ مخواہ اعتراض کر رہے ہیں۔ اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ فاضل چیف جسٹس کے تشکیل کردہ بنچ میں سنیارٹی کو ایک طرف رکھتے ہوئے جج صاحبان کو شامل کیا گیا ہے۔ فاضل چیف جسٹس کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس بنچ میں شامل ہونے والے فاضل جج صاحبان کی غیر جانبداری کو چیلنج کیا جا سکتا ہے اس کے باوجود سوال تو اٹھا دیا گیا ہے کہ لارجر بنچ کی تشکیل کے وقت سینئر ترین ججوں سے مشورے کے بعد فیصلہ ہوتا اور آئین کی تشریح کے لیے سنیارٹی کے لحاظ سے ججوں کو شامل کیا جاتا تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ ہو سکتا ہے کہ فاضل چیف جسٹس کے پاس اس دلیل کا کوئی جواب ہو۔ امید کرنی چاہیے کہ وہ جواب سامنے آ جائے گا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خط کے بعد جن لوگوں کے ذہنوں میں شکوک پیدا ہو گئے ہیں انہیں رفع کیا جا سکے۔
عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی ایک مسلمہ اصول ہے ایسے میں ایگزیکٹو کے ایک فرد کو سپریم کورٹ کا رجسٹرار مقرر کرنے سے انتظامیہ عدلیہ پر اثر انداز ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے مقدمات کو اپنی مرضی کے ججوں کے پاس بھیج سکتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی تقرری کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے اور جن خیالات کا اظہار اوپر کیا گیا ہے وہ نکات فاضل جج نے اپنے خط میں اٹھائے ہیں۔ بات حکومت یا اپوزیشن کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھنے کی نہیں، یہ آج ہیں کل نہیں ہوں گے مگر آئین ایک مقدس دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جس نے اس ریاست کو چلانا ہے۔ اگر ہر حکمران اپنی مرضی کی تشریح کے لیے اسی طرح عدالتوں کو استعمال کرنے لگے گا تو پھر بہت سی قباحتیں پیدا ہو جائیں گی۔
پاکستان کے بہت سے مسائل کی وجوہات میں ایک وجہ عدلیہ بھی رہی ہے۔ عدلیہ نے اپنی آزادی اور خودمختاری پر سمجھوتے کیے۔ ایگزیکٹو کے منہ زور گھوڑے کو لگام عدلیہ نے دینا تھی مگر عدلیہ کا کردار اتنا تابناک نہیں ہے اور اسی کردار کو دیکھتے ہوئے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ہمیں پوری امید ہے کہ فاضل چیف جسٹس عدلیہ کے کردار کو تابناک بنانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔
فاضل جج قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خط میں بنچ کی تشکیل کے حوالے سے سپریم کورٹ کے مروجہ طریقہ کار کو مدنظر رکھنے کی بات کی ہے۔ ایک ایسا مقدمہ جس پر پوری قوم کی نظریں لگی ہیں اسے صاف شفاف انداز میں سنا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انصاف کرنا ہی ضروری نہیں بلکہ انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہیے۔ اہم آئینی مقدمہ جو آج سے سنا جائے گا اس کی سربراہی چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس عطا محمد بندیال کر رہے ہیں دیگر جج جو اس میں شامل ہیں ان میں مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔ اس بنچ میں ایک جج سنیارٹی میں چوتھے، ایک آٹھویں اور ایک تیرویں نمبر پر ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خط میں اس سنیارٹی کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر موسٹ جج ہونے کی حیثیت سے یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تمام حقائق سے چیف جسٹس کو آگاہ کریں۔
ایگزیکٹو اور عدلیہ اس ملک کے اہم ستون اور آئینی ادارے ہیں، دونوں اداروں کو جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے اپنا اپنا کردار اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے سرانجام دینا ہو گا۔ سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ کو اکھاڑہ بنانے سے گریز کریں۔ سپریم کورٹ بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں کوئی دخل نہیں دینا چاہتی مگر پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو باربار سپریم کورٹ کو اپنے سیاسی عزائم کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ سپریم کورٹ کوئی نیا قانون بنانے یا آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار نہیں رکھتی ہاں آئینی طور پر وہ تشریح کرنے کا اختیار ضرور رکھتی ہے اور اسے اپنے اس کام کو انتہائی احسن انداز میں سرانجام دینا چاہیے۔ آج سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کی سماعت اور کل قومی اسمبلی میں ہونے والی کارروائی کے بعد بہت کچھ واضح ہو جائے گا کہ ملک میں جمہوریت اور جمہوری اقدار مضبوط ہو رہی ہیں یا ابھی بہت سا سفر طے کرنا باقی ہے۔