اسلام آباد: پاکستان کے سابق سفیر ڈاکٹر عبدالباسط نے کہا ہے کہ ہم نے پاکستان سے ملنے والے احکامات پر عمل کیا اور مجھ سمیت دوسرے افسران نے اسی طرح رقوم کی ادائیگی کر کے دستاویزات پاکستان بھجوائیں لیکن وہ دستاویزات کہاں غائب ہو گئیں، اللہ بہتر جانتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر عبدالباسط نے اپنے ایک بیان میں براڈشیٹ کمیشن کے مندرجات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت میں ڈپٹی کمشنر تھا اور ہمیں پاکستان سے جو احکامات ملے ان پر عمل کیا، مجھ سمیت دوسرے افسران نے اسی طرح رقوم کی ادائیگی کی اور دستاویز پاکستان بھجوائیں، ان دستاویزات میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں تھی، ہم نے تمام دستاویزات پاکستان بھجوائیں لیکن پھر وہ کیسے غائب ہو گئیں، اللہ بہتر جانتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ سفارتکاری کے معاملات بہت کم ہو چکے ہیں، ہمیں اس وقت تیسرے فریق کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جبکہ بھارت کیساتھ تعلقات میں مسئلہ کشمیر کو اولین ترجیح حاصل ہونی چاہئے، مودی حکومت بار بار مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق بات چیت سے پھر رہی ہے، بھارت اب اگر اس پر بات چیت کرتا ہے تو بہت اچھی بات ہے لیکن اگر وہ مسئلہ کشمیر سے ہٹ جاتا ہے تو پھر بات چیت کا فائدہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر عبدالباسط نے کہا کہ ہمارے پاس آپشنز بڑے محدود ہو گئے ہیں اور پانچ اگست کے معاملے کے بعد بہت زیادہ تبدیلی آ چکی ہے۔ عالمی قانون کے مطابق آپریشن کیخلاف جدوجہد جائز ہوتی ہے، 2006ء میں پاکستان نے واجپائی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ پاکستان سے کوئی در اندازی نہیں ہو گی، کشمیر پر ہمارا مقدمہ مضبوط تھا لیکن اسے ہم کمزور سے کمزور کرتے گئے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شرم الشیخ اور کوفہ کی کانفرنسز میں کشمیر کا ذکر ہی نہیں تھا۔
خیال رہے کہ براڈشیٹ انکوائری کمیشن رپورٹ کے مندرجات سامنے آ گئے ہیں جس میں تہلکہ خیز انکشاف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 15 لاکھ ڈالر کی خطیر رقم کو اد اکرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا عالمی سطح پر اس کی مثال ملتی ہے جس میں سفارتی معاہدہ کیا جائے اور جگہ خالی چھوڑ دی جائے۔