اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر کے سیاسی خود کشی کی۔
سنی اتحاد کونسل کی پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی بینچ فل کورٹ بینچ کیس کی براہ راست سماعت کی۔
جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عوام نے آپ کو چنا، جس پر سلام اکرم راجہ نے جواب دیا کہ مجھے تو نہیں چننے دیا گیا۔ جسٹس اطہر نے استفسار کیا کہ سلمان اکرم راجہ صاحب اپ بتائیں عدالت کی کیا اپروچ ہونی چاہیے، جس پر سلمان اکرم راجہ کی جانب سے ورکر پارٹی کیس کا حوالہ دیا گیا۔
چیف جسٹس کا استفسار ورکر پارٹی کیس کے مطابق الیکشن کمیشن کا تقرر ہم نے نہیں کرنا، الیکشن کمیشن کا آپ نے تقرر کیا، سلمان اکرم راجہ نے موقف دیا کہ کبھی کبھی غلطیاں بھی کرتے ہیں، چیف جسٹس نے جواب دیا کہ تو پھر غلطی ہم نے تو نہیں کی۔ جمال مندوخیل نے کہا کہ مطلب یہ ہے سلسلہ چلتا آرہا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ سلسلہ چلتا آرہا ہے آپ نے ٹھیک کرنا ہے۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نہیں ہم نے ٹھیک نہیں کرنا، کیا سیاسی جماعتیں بیٹھ کر یہ حل نہیں کریں گی؟ ۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حقیقت ہے کہ یہ سب ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اپ الیکشن کمیشن میں غلطی دیکھتی ہیں تو درخواست لائیں یا پارلیمنٹ جائیں، ہم پارلیمان یا الیکشن کمیشن کی بے توقیری قبول نہیں کروں گا، ایسا ہی رویہ میں اپنے لئے بھی توقع رکھتا ہوں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکٹورل پراسیس پر عوام کا اعتماد ہے، سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میرا موقف ہے کہ سنی اتحاد کونسل کو جوائن کرنے پر پابندی نہیں تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر یہ نکتہ خودکشی ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاسی جماعت کی اہمیت پر کوئی اعتراض یا انکار نہیں، ایک سیاسی جماعت جس نے الیکشن لڑا اس کو ایک فائدہ دیا گیا، آزاد تو آزاد ہیں چاہے جس کو مرضی جوائن کریں۔ جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے استفسار کیا کہ یا آزاد امیدوار اب سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کے بعد تحریک انصاف کے ممبر نہیں رہے، سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ بلکل اب وہ سنی اتحاد کونسل کے ممبر ہیں، جس جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے ریمارکس دیے کہ پر کیا اب انکا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں؟ ایسا کرنے پورا کیس بدل جائے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کتنی سیاسی جماعتوں نے الیکشن لڑا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ جے یو آئی یا محمود اچکزئی کی سیاسی کو جوائن کر سکتے تھے، سنی اتحاد کونسل کا مشورہ کس کا تھا۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سیاسی جماعت اس وقت پارلیمان میں ہیں، اٹارنی جنرل
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سلمان اکرم راجہ صاحب آپ اپنا موقف بدلتے جا رہے ہیں، کیا اپ اپنے ووٹرز کے ساتھ فئیر ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بار بار آپ کو کہہ رہا ہوں آپ نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیوں کیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کو مس لیڈ نہیں کرسکتا، مس لیڈ کرنے کی وجہ سے سارا بحران پیدا ہوا۔ ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تحریک انصاف کے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی میں کیا لکھا ۔جس پر وکیل ، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مجھے معلومات لینا ہوں گئیں
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بنیادی معلومات نہیں پتہ تو پھر ہمارے سامنے کیا کررہے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
اس سے قبل دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارٹی الیکشن نہیں لڑتی بلکہ امیدوار الیکشن لڑتے ہیں۔ جس سیاسی جماعت نے انتخابات لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی اسے مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل کو مخاطب کرتے کہا کہ آپ کے دلائل مفادات کا ٹکراؤ ہیں۔ یا آپ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کریں یا پی ٹی آئی کی نمائندگی کریں۔ ہم نے صرف دیکھنا ہے آئین کیا کہتا ہے۔ ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ نظریاتی میں گئے اور پھر سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے۔ آپ صرف سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ وکیل نے کہا کہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کیلئے کوئی چوائس نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی باتیں نہ کریں۔ ملک میں ایسے عظیم ججز بھی گزرے ہیں جنھوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔ صرف آئین پر رہیں،
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان ہے کیا۔ وکیل نے جواب دیا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا۔
جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دیا تو اپیل کیوں دائر نہیں کی۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہ اس سوال کا جواب سلیمان اکرم راجہ دیں گے۔ جیف جسٹس نے کہا کہ رولز آئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔
وکیل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے کہا تھا 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا دس فیصد والی سیاسی جماعتوں کو ساری مخصوص نشستیں دے دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جی بالکل آئین یہی کہتا ہے۔ کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس ملک کی دھجیاں اسی لیے اڑائی گئیں کیونکہ آئین پر عمل نہیں ہوتا۔ میں نے حلف آئین کے تحت لیا ہے۔ پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں۔
جسٹس عرفان سعادت خان نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ آپ کے دلائل سے تو آئین میں دیے گئے الفاظ غیر مؤثر ہو جائیں گے، سنی اتحاد کونسل تو سیاسی جماعت ہی نہیں ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مخصوص نشستیں انتخابات میں پرفارمنس پر انحصار نہیں کرتیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ انتخابی نشان چلے جانے کے بعد سیاسی جماعت نہیں رہی، الیکشن کمیشن نے اِن لسٹڈ سیاسی جماعت تو قرار دیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی اب بھی سیاسی جماعت کا وجود رکھتی ہے تو دوسری جماعت میں کیوں شامل ہوئے؟ آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کر کے خودکشی کیوں کی جو آپ کے دلائل کے خلاف جا رہا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ میں نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ پڑھا جو انتخابات سے قبل آیا، پورا معاملہ کنفیوژن کا شکار ہوا جب پی ٹی آئی سے نشان لے لیا گیا، سوال ہے کہ پی ٹی آئی نشان کے بغیر کیسے انتخابات جیت سکتی ہے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی فیصلے کے بعد بھی منظرِ عام پر ہے تو آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟ آپ کہہ سکتے تھے کہ پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں، کہانی ختم ہو جاتی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزاد امیدوار کو الیکشن کمیشن نے قرار دیا، الیکشن کمیشن کی رائے ہم پر لازم نہیں، پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد سیاسی جماعتیں ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے سبب آزاد امیدوار قرار دیا، یہ تو بہت خطرناک تشریح ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ کیا تمام امیدوار تحریکِ انصاف کے تھے؟ تحریکِ انصاف نظریاتی کے سرٹیفکیٹ جمع کرا کر واپس کیوں لیے گئے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی غلط تشریح کر رہا ہے تو ضروری نہیں کہ اسے دیکھا جائے، آئین کو دیکھنا ہے، عدالت یہاں یہ دیکھنے نہیں بیٹھی کہ الیکشن کمیشن نے کتنی زیادتی کی، عدالت کو دیکھنا ہے کہ آئین کیا کہہ رہا ہے۔
جسٹس عرفان سعادت نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں جو نشستیں جیت کر آئے انہیں مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں، جب سنی اتحاد نے انتخاب ہی نہیں لڑا تو نشستیں جیتنے والی بات تو ختم۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کو سیاسی جماعت تسلیم کیا، انتخابی نشان واپس لینے سے سیاسی جماعت ختم تو نہیں ہو جاتی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر تحریکِ انصاف سیاسی جماعت ہے تو آزاد امیدوار تحریکِ انصاف سے الگ کیوں ہوئے؟ پی ٹی آئی کے امیدواروں نے آزاد ہو کر کیا خودکشی کی ہے؟ آزاد امیدوار تحریکِ انصاف میں رہ جاتے تو آج کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پھر سوال کیا کہ جس سیاسی جماعت نے انتخابات لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی اسے مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے لیے ایک ہی انتخابی نشان پر انتخابات لڑنا شرط نہیں۔