اسلا م آباد: وفاقی حکومت کی جانب سے بڑی صنعتوں پر دس فیصد کے حساب سے ’سپر ٹیکس‘ لگانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا ہے کہ اس اقدام سے اکٹھے ہونے والے پیسوں کو ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ’سپر ٹیکس‘ کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپر ٹیکس چار فیصد کے حساب سے تمام شعبوں پر لگے گا جبکہ 13 صنعتی شعبوں پر چھ فیصد کے حساب سے اضافہ کر کے ان سے دس فیصد کی شرح سے یہ سپر ٹیکس وصول کیا جائے گا جس کے بعد ان پر ٹیکس وصولی کی شرح 29 فیصد سے 39 فیصد ہو جائے گی۔
وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ ٹیکس صرف ون ٹائم یعنی ایک مالی سال کے لیے لگایا گیا ہے اور اس کے ذریعے سابقہ چار ریکارڈ بجٹ خساروں کو کم کیا جائے گا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے دو ہفتے قبل پیش کیے جانے والے اگلے مالی سال کے بجٹ کے لیے ٹیکس کا ٹارگٹ سات ہزار ارب روپے رکھا تھا جسے اب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی شرائط کے تحت 7400 ارب کیا جا رہا ہے۔
حکومت کی جانب سے ’سپر ٹیکس‘ کی اصطلاح استعمال ہونے کے بعد جہاں سوشل میڈیا صارفین اس ’نئے‘ ٹیکس کی وضاحتیں طلب کرتے نظر آ رہے ہیں وہیں معاشی ماہرین برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں اس ٹیکس کے نفاد کے پاکستان کی معاشی صورتحال پر پڑنے والے اثرات پر اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ جبکہ اپوزیشن تحریک انصاف نے دعویٰ کیا ہے سپر ٹیکس کا نفاذ ملک میں مہنگائی میں اضافے کا باعث بنے گا۔
حکومت کی جانب سے بڑے صعنتی شعبوں پر سپر ٹیکس لگانے کے اعلان کے بعد اس ٹیکس کی نوعیت کے بارے میں ماہر ٹیکس امور اشفاق تولہ نے بتایا کہ یہ ایک خاص ٹیکس ہوتا ہے اور عمومی ٹیکس کے اوپر لگایا جاتا ہے۔
ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے اس سلسلے میں وضاحت دیتے ہوئے بی بتایا کہ سپر ٹیکس لگ سکتا ہے تاہم ٹیکس لگاتے ہوئے اس کا مقصد بیان نہیں کیا جاتا۔‘
اس سپر ٹیکس کو لگاتے ہوئے حکومت نے اس کا مقصد بیان کر دیا ہے کہ اس سے اکٹھے ہونے والے پیسے کو غربت کے خاتمے کے لیے استعمال کیے جائیں گے، جو غلط ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کسی ٹیکس کو لگانے کا مقصد بیان کر دیا جائے تو وہ لیوی ہوتی ہے اور اس کی منظوری پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے حاصل کی جاتی ہے۔
اشفاق تولہ نے کہا کہ یہ ٹیکس حالات کو دیکھ کر لگایا جاتا ہے اور ایمرجنسی کی صورت میں کوئی بھی حکومت ہنگامی اقدامات کے تحت اسے عائد کر سکتی ہے۔‘
ڈاکٹر اکرام الحق نے اس سلسلے میں بتایا کہ اس ٹیکس کا مقصد یہی ہے کہ زیادہ پیسے اکٹھے کیے جائیں گے لیکن اس ٹیکس کے ذریعے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے شعبوں پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر زیادہ پیسے اکٹھے کرنے ہیں تو اس کے دوسرے بھی طریقے ہیں کہ جس میں بجٹ میں دی جانے والی ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا جائے اس کے ساتھ غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی لائی جائے۔‘
زرعی ٹیکس اور ہول سیلرز اور ٹریڈرز کے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جانا چاہیے لیکن حکومت نے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے شعبوں پر ہی زیادہ ٹیکس ڈال دیا ہے۔
سپر ٹیکس کے نفاذ پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اکرام نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے اس ٹیکس کے ون ٹائم (یعنی صرف ایک مرتبہ) کے لیے نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔پاکستان میں بینک 31 دسمبر کو اپنے اکاوئنٹس بند کرتے ہیں۔
یعنی جب بینکوں نے 31 دسمبر 2021 کو اپنے اکاونٹس بند کیے تو انھیں 30 ستمبر 2022 تک اپنے ریٹرن فائل کرنے ہیں اور ان ریٹرنز میں انھیں یہ ٹیکس ادا کر کے دکھانا ہے۔
یعنی جب وہ اپنے سال کلوز کر رہے تھے تو اس وقت یہ ٹیکس نہیں تھا تاہم اب جب چھ مہینے بعد یہ ٹیکس لگا ہے تو انھیں اپنے منافع میں سے یہ ٹیکس ادا کرنا اور ریٹرن میں دکھانا پڑے گا۔
دوسری جانب کمپنیوں کے اکاؤنٹس مالی سال کے اختتام پر بند ہوتے ہیں یعنی جب 30 جون 2022 کو کمپنیاں اپنے اکاونٹس بند کریں گی اور انھیں اپنے ریٹرن 31 دسمبر 2022 تک جمع کروانا ہوں گے تو انھیں یہ اضافی ٹیکس ادا کر کے ریٹرن میں دکھانا ہو گا۔
ڈاکٹر اکرام نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ ون ٹائم ٹیکس ہے تاہم اس کے بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اگلے سال حکومت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے دس فیصد کی شرح سے سپر ٹیکس 13 صعنتی شعبوں پر لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
ان شعبوں میں سیمنٹ، بینکنگ، ایوی ایشن انڈسٹری، ٹیکسٹائل، آٹو موبائل، شوگر، بیوریج، سٹیل، تیل و گیس، فرٹیلائزر، سگریٹ، کیمیکل کے شعبے کی انڈسٹریاں شامل ہیں جنھیں دس فیصد کے حساب سے یہ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔
پاکستان میں ان شعبوں کے علاوہ دوسرے صعنتی شعبے چار فیصد کے حساب سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور درج بالا پر چار فیصد شرح میں چھ فیصد کی شرح سے اضافہ کر کے ان پر سپر ٹیکس کی صورت میں دس فیصد ٹیکس کی شرح کر دی گئی ہے۔
پاکستان فیڈریشن آف چمبرز آف کامرس اور انڈسٹری کے قائم مقام صدر شبیر منشا نے سپر ٹیکس کے فیصلے کو صنعتی شعبے کے لیے تباہ کن قرار دیا۔
واضح رہے کہ سپر ٹیکس کی زد میں آنے والے شعبوں کی کمپنیوں پر اضافی ٹیکس لگنے کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ جمعے کے روز کریش کر گئی کیونکہ ان کمپنیوں میں سے بڑی تعداد سٹاک مارکیٹ پر لسٹڈ ہیں۔
شبیر منشا نے بتایا کہ صعنتی شعبے پر گیس، بجلی، اور بلند شرح سود کی وجہ سے پہلے ہی بہت زیادہ بوجھ ہے اور سپر ٹیکس اس شعبے کی ترقی کو متاثر کر کے ملک کی اقتصادی ترقی کو متاثر کرے گا۔
انھوں نے کہا کہ سپر ٹیکس کو کمپنیاں عوام تک منتقل کر سکتی ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔