جنوری 2012 ء میںدل کے مریضوں کیلئے استعمال ہونے والی آئسو ٹیب ٹیبلٹس میں اینٹی ملیریا کے کیمیکل کی ملاوٹ ہوگئی۔ اس کے باعث یہ دوائی ان مریضوں کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی جو اسے روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) کی طرف سے یہ دوا مریضوں کو مفت مہیا کی جاتی تھی۔ تقریباً 151 اموات ہوئیں۔اسی طرح اس سے پہلے نومبر 2021 میں جعلی ٹائنو سیرپ کے استعمال کے باعث پنجاب کے دو اضلاع میں 50 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ان اموات میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان ادویات کی ٹیسٹنگ کی پاکستان میں قابل اعتماد سہولیات نہیں تھیں ۔ ان ادویات میں ملاوٹ کا پتہ برطانیہ کی لیبارٹریز سے آنے والی رپورٹ کے ذریعے ہوا ۔ پاکستان میں صارفین کو دستیاب ادویات میں سے 45 سے 50 فیصد نہ صرف جعلی ہوتی ہیں بلکہ ان میں ایسے اجزا بھی شامل ہوتے ہیں جن سے مریضوں کی صحت کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
یہی وہ وقت تھا جب اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ماہرین کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد پنجاب فورینزک سائنس ایجنسی اور پنجاب فوڈ ، ایگریکچر اینڈ ڈرگ اتھارٹی اور ٹریننگ لیب پر مشتمل پنجاب سائنس انکلیو قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ پنجاب فوڈ ، ایگریکچر اینڈ ڈرگ اتھارٹی پنجاب سائنس انکلیو کا ایک اہم حصہ ہے۔خادم اعلیٰ پنجاب نے ایف ڈی اے امریکہ اورپنجاب فورنزک سائنس ایجنسی لاہور کی طرز پر تھری ان ون سٹیٹ آف دی آرٹ بی ایس ایل تھری سطح کی لیبز بنانے کا فیصلہ کیا جو پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی لیبارٹریاں ہوں گی۔ان لیبارٹریز میں خوراک کے ضمن میں خام اور تیار شدہ غذا ،زرعی اشیاکے ضمن میں کیڑے مار ادویات اور کھادوں اورانسانی استعمال اور جانوروں کیلئے ادویات کی ٹیسٹنگ ہو گی ۔اس سارے پراجیکٹ کو قانونی تحفظ دینے کیلئے صوبائی اسمبلی نے 18 مئی 2016 کو باقاعدہ پنجاب فوڈ ، ایگریکچر اینڈ ڈرگ اتھارٹی ایکٹ کی منظوری دی۔جس طرح پنجاب فورنزک اینڈ سائنس ایجنسی پولیس کی مداخلت کے بغیر ایک خودمختار فرانزک لیب کے طور پر قائم کی گئی تھی اوراس کی رپورٹوں کو دنیا بھر میں انتہائی مستند اور درست سمجھا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرز پر پنجاب ایگریکلچر، فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی قائم کی گئی تھی تاکہ نہ صرف خوراک، زراعت اور ادویات کو ملاوٹ سے پاک کیاجاسکے بلکہ ان شعبوں کوکنٹرول کرنے والے مافیا پر قابو پانے کے لئے محکمے کے اثرونفوذ سے پاک فوڈ، زراعت اور فارما لیبز قائم کی جاسکیں۔ یہ پراجیکٹ ملاوٹ زدہ خوراک، کھادوں اور زرعی ادویات کی تیاری میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہوگااور سب سے اہم یہ کہ جعلی اور ملاوٹ شدہ ادویات پر کنٹرول پایا جا سکے گااور رجسٹریشن کے بغیر کوئی دوائی فروخت نہیں ہو سکے گی ۔ پنجاب فوڈ ، ایگریکچر اینڈ ڈرگ اتھارٹی لیب ہربل،خام میٹریل،پیکجنگ میٹریل ،کارڈیک سٹنٹ،ہڈیوں کے مصنوعی اجزا، کاسمیٹکس،خوراک کے اجزا،تھرمل طریقے سے پراسس ہونے والے پھل اور سبزیوںاوردرآمدی سامان کے علاوہ پولٹری اورجانوروں کی فیڈ کی بھی ٹیسٹنگ کرے گی اوریہ ٹیسٹنگ کی یہ تمام سہولیات ایک ہی چھت تلے دستیاب ہوں گی۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ان تمام شعبوں میں اب تک ٹیسٹنگ کی کوئی خاطر خواہ سہولیات پنجاب میں دستیاب ہی نہیں ہیں۔کام کے معیار کو عالمی سطح کے برابر لانے کیلئے حکومت کی براہ راست کم سے کم مداخلت کو یقینی بنایا جائے گا اور سرکاری اور نجی شعبوں سے نمائندگی پر مشتمل خودمختار اتھارٹی اس کو کنٹرول کرے گی۔
اگر اس عظیم پراجیکٹ پر طے شدہ منصوبہ بندی کے مطابق کام جاری رہتا تو اسے 2019تک مکمل ہو جانا تھا لیکن قومی اور عوامی اہمیت کے اس منصوبے پر کام محض اس لئے چار سالوں تک روکے رکھنا کہ یہ اس وقت کے خادم اعلیٰ نے شروع کیا تھا ،کتنا سفاک عمل ہے اس کا فیصلہ عوام خود کریں گے کیونکہ وہی ہیں جنہیں اس منصوبے کے ثمرات سے اب تک محروم رکھا گیا ہے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے گذشتہ دنوں اس منصوبے کا دورہ کیا تو یہ دیکھ کر افسردہ ہوئے کہ اس عظیم منصوبے پر تو کافی کام ہونا ابھی بھی باقی ہے ،اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے کہا کہ خادم اعلیٰ کے شروع کئے گئے اس منصوبے کو گذشتہ دور حکومت میں نظر انداز کیا گیا اورگذشتہ چار سال کے دوران جس سست روی کا مظاہر ہ کیا گیا اس کے باعث اب اس کی لاگت اور تکمیل پر تین ارب روپے کی زائد رقم خرچ کرنا پڑے گی ۔انہوں نے ہدایت کی کہ عظیم منصوبے کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے اورجلد فنگشنل کرنے کیلئے تین شفٹوں میں کام کیا جائے ۔ انہوں نے ڈائریکٹر جنرل پارکس اینڈ ہارٹیکلچر کو بھی ہدایت کہ بلڈنگ کے اطراف میں زیادہ سے زیادہ پودے لگا کر علاقے کو سرسبز بنایا جائے ۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن مفاد عامہ کی اہمیت کے ایسے منصوبے جن پر انسانی نسل کی بقاء کا انحصار ہو ، میں رکاوٹیں پیدا کرنا ،مناسب فنڈنگ روک کر سست روی کا شکار کرنا اورعوام اور معاشرے کو اس کے ثمرات سے محروم رکھنا کہاں کی گڈ گورننس اور کہاں کی سیاست ہے ۔پھر اس کی تعمیر میں سست روی کی وجہ سے لاگت میں تین ارب روپے کا اضافہ کیا پنجاب کے غریب عوام کے حقوق پر ڈاکہ نہیں تو اور کیا ہے ۔ ذرا تصور کریں کہ اگر یہ منصوبہ اپنے وقت پر آج سے تین سال پہلے مکمل ہوتا اوراس کی لیبارٹریز میںانسان اور جانوروں کے استعمال کی ادویات، کھانے پینے کی دیگر اشیاء ، کھاد اورزرعی ادویات کی ٹیسٹنگ کے نتیجے میں ملاوٹ شدہ اشیاء کی خرید فرووخت اور استعمال پر پابندی لگتی تو کتنی قیمتی انسانی جانیں اور مویشی بچ سکتے تھے ۔ اس منصوبے کی تاخیر کی وجہ سے نسل انسانی کی رگوں میں تین سالوں میں جتنا زہر انڈیلا جا چکا ہے اس کا حساب کون دے گا ۔۔؟؟ اس کا مداوا کیسے ہو گا؟؟ اگرچہ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے منصوبے کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے تین شفٹوں میں کام کرنے کی ہدایت کی ہے لیکن ابھی بھی اس منصوبے کو مکمل فعال ہونے میں چند ماہ درکار ہوں گے ۔اس دوران سیاسی منظر نامے پر تبدیلی آنے کی صورت میں اس منصوبہ کو پھرسے تعطل اور سست روی کا شکار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہمارے معاشرتی حالات اور سماجی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے اور نہ ہی ہم اس کے متحمل ہو سکتے ہیں کیوں کہ پنجاب ایگریکلچر ، فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی ہی واحد ادارہ ہے جو ملاوٹ میں رکاوٹ کا سبب اور ایک دیوار بن کر اس کا سلسلہ روک سکتا ہے۔