وفاقی وزیر احسن اقبال نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا میں وہ ممالک گنوا سکتا ہوں جنہوں نے ہمارے جتنی کرپشن کر کے ترقی کر لی کرپشن ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے ۔ احسن اقبال کی اس بات سے جو مفہوم عیاں ہوتا ہے اس سے یہی مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کرپشن جمہوری حکومتوں کا مینڈیٹ ہے ۔ وہ ملکی ترقی کے لئے کچھ کریں گے بھی تو اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے۔ ہم ماضی کی سیاست کا مشاہدہ کریں اور سیاست دانوں پر لگے کرپشن کے الزامات کا جائزہ لیں تو یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔ اس ملک کے سارے لوگ جانتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے بعد سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قائم ہونے والی حکومتوں نے کرپشن اور قومی دولت کی لوٹ مار کے سوا کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ ہماری سیاسی جماعتیں نہ صرف خود ایسے افعال قبیح میں ملوث ہو گئیں بلکہ چوروں اور لٹیروں کی سرپرستی اور انہیں تحفظ بھی دیتی رہی ہیں ۔ جب بھی ان دونوں جماعتوں کی حکومت ختم ہوتی ہے تو یہ کہتی ہیں کہ ان کی حکومت کے خلاف مقتدر حلقوں نے مل کر سازش کی ہے۔ وہ یہ ماننے کے لئے قطعاً تیار نہیں ہوتے کہ ان کی اس مخالفت کی وجہ اور سبب ان کا وہ اندازِ حکومت ہے جس میں وہ کرپشن کو اپنا جمہوری حق اور مینڈیٹ سمجھتی ہیں۔اور اگر کوئی ان کے راہ میں حائل ہونے لگے تو وہ اسے اپنا دشمن قرار دینے لگتی ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کے قائدین پر کرپشن اور مالی بدعنوانی کے بہت سے الزامات لگتے رہے ہیں اور ان پر مقدمات بھی درج ہیں آج کل ان دونوں جماعتوں کے قائدین ان مقدمات میں عدالتوں میں پیش بھی ہو رہے ہیں جب کہ کئی ایک مقدمات میں ان جماعتوں کے قائدین کو سزائیں بھی ہو چکی ہیں۔ ان سیاست دانوں کے اثاثے اس تھوڑے سے عرصہ میں کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں۔
ان کی کرپشن کے لاتعداد ایسے واقعات ہیں جن کی گونج ابھی تک ہمارے کانوں میں سنائی دے رہی ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر ان دونوں جماعتوں کی حکومتیں فارغ ہوئیں اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے ان 35سال تک حکومت کرنی والی جماعتوں کو 2018ء کے انتخابات میں فارغ کر کے ایک نئی جماعت تحریکِ انصاف کو موقع دیا۔ یہ جماعتیں خود کو قصور وار اور گناہگار سمجھنے کے بجائے کہنے لگیں کہ فوج نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے اور دھاندلی سے تحریکِ انصاف کو حکومت میں لایا گیا ہے۔ گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران یہ سیاست دان پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف مہنگائی اور نا تجربہ کاری کا رونا روتے رہے ہیں لیکن اب اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے جو مہنگائی کر دی ہے اس سے عوام بلبلا اٹھے ہیں۔
اس حقیقت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ہماری جمہوریت پر ہمیشہ امراء و روسا کا قبضہ رہا ہے۔ چنانچہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی اکثریت بالخصوص دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نہ صرف امراء و روسا کے طبقوں میں شمار کئے جاتے ہیں بلکہ ان میں سے بیشتر جاگیردارانہ پس منظر کے حامل ہیں۔ اس ضمن میں دو اہم عوامل نے نمایاں کردار ادا کیا ہے، موروثی سیاست اور سیاسی جماعتوں کی قیادت پر کسی ایک خاندان کا قبضہ۔ موروثی سیاست میں جماعت کے اندر جمہوریت سرے سے نہیں ہوتی جس کے نتیجے میں پارٹی کی لیڈر شپ بالعموم امیر کبیر اور جاگیر دار ، زمیندار اور صنعت کار ہوتی ہے۔ جس کے لئے اپنے خاص لوگوں اور مقربین کو آگے لانا آسان ہو جاتا ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک عام غریب آدمی اور متوسط طبقے کے پاس سرے سے ہوتا ہی نہیں ہے اور اس طرح یہ طبقہ انتخابات میں حصہ لینے یا اس میں شریک ہونے کی بابت سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایسی جمہوری حکومتوں اور ہماری مسخ شدہ جمہوریت میں واضح فرق یہ ہے کہ ہمارے ہاں امراء کا رویہ اور اداروں کا ارتقا بہتر طریقے سے نہیں ہو پایا۔
ہمارے سیاسی امراء اور عمائدین بالعموم کرپٹ اور نا اہل واقع ہوئے ہیں۔ یہ لوگ حصولِ اقتدار صرف شہرت یا عام زندگی کی بہتری کے لئے نہیں چاہتے بلکہ برسرِ اقتدار آنا ان کی زرگری کے لئے اشد ضروری ہے۔ حکومت کتنے عرصے تک برقرار رہے گی اس کے بارے میں یہ لوگ ہمیشہ شش و پنج میں مبتلا رہتے ہیں اور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولٹ سمیٹنا ان کا نصب العین ہوتا ہے۔ ملک اور عوام کے بارے میں فکر مند ہونا اس طبقے کے نزدیک قطعاً ضروری نہیں ہے۔ بیشتر سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کی اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک املاک ،جائیدادوں اور اثاثوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو آپ محسوس کریں گے کہ اس ملک کے عوام کو بری طرح لوٹا گیا ہے۔ یہی سٹیٹس کو کی جماعتیں اور افراد ہیں۔ عمران خان اس سٹیٹس کو کو توڑنے اور اصلاحات کے ذریعے پر امن انقلاب لانے کے آرزو مند ہیں۔ یہ تجربہ ذوالفقار علی بھٹو کر چکے ہیں وہ کامیاب نہ ہو سکے اور سٹیٹس کو کی قوتوں نے ان کو عبرت ناک مثال بنا دیا۔ یہی کچھ عمران خان کے ساتھ کیا گیا سٹیٹس کو کی تمام قوتیں اکٹھی ہو گئیں اور انہوں نے اس کو قتدار سے محروم کر دیا اور خود سے اقتدار میں آ کراپنے مفادات کی آبیاری شروع کر دی ہے۔ البتہ عمراں خان کے ساتھ آج عوام اور خاص طور پر نوجوان کھڑے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام میں تبدیلی کی خواہش موجود ہے۔ عمران خان طاقتور مافیا کا مقابلہ عوامی طاقت سے کر سکتے ہیں۔ لازم ہے کہ وہ عوام کے ساتھ اسی طرح رابطے میں رہیں۔سٹیٹس کو کے قائدین تو یہی کہیں گے کہ کرپشن سے ترقی نہیں رکتی جب کہ کرپشن وہ ناسور ہے جس سے حاصل کی گئی ترقی کبھی پائیدار نہیں ہو سکتی۔