نئی دہلی:بھارتی میڈیا کا ایک مخصوص حصہ خطے میں امن کے امکانات کو ثبوتازکرنے کےلئے منفی ہتھکنڈوں کا سہارا لے رہا ہے اور پروپیگنڈے پر مبنی من گھڑت کہانیاں بنا کر آلہ کار بنا ہوا ہے ۔ ایک سیکورٹی تجزیہ کار ظفر کمال نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی نیوز چینل سی این این نیوز18 کی ایک حالیہ رپورٹ، جس میں بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط مقبوضہ جموں و کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے کردار کے بارے میں جھوٹے دعوے کو اجاگر کیا گیا، جعلی ثابت ہوئی ہے اور یہ اسی پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے جو بعض دشمن اور متعصب بھارتی میڈیا اداروں کی طرف سے کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ بھارت کے جھوٹے ریاستی بیانیے کا حصہ ہے اور زمینی حقائق کے منافی ہے جو بھارتی ریاست اور فوجی قیادت کے بلند و بانگ دعوؤں سے متصادم ہے۔
ماضی قریب میں میڈیا ماہرین کی طرف سے کہا گیا کہ بھارتی ریاست نے بین الاقوامی اور ملکی دباؤ کو ختم کرنے اور بھارتی غیر قانونی زیر تسلط مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹے فلیگ آپریشنز اور جعلی خبروں جیسے بدنیتی پر مبنی حربوں کا سہارا لیا۔بھارتی میڈیا کی طرف سے مختلف کارروائیوں کے نتیجے میں سرحد پار سے ہونے والی دراندازی کو ختم کرنے کے حوالے سے بھارتی فوج کے جھوٹے دعوئوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی ایجنسیوں اور یورپی یونین ڈس انفو لیب جیسے عالمی اداروں نے بھارت کو جھوٹ کو بطور ریاستی آلے استعمال کرنے کے لئے بار بار بے نقاب کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ اس کے برعکس پاکستان نے ہمیشہ تحمل سے کام لیا ہے اور بھارت کی جانب سے مسلسل زہر اگلنے اور غلط مہم جوئی کرنے کے باوجود شاندار رویہ کا مظاہرہ کیا ہے۔چاہے وہ ابھینندن ہو یا ہندوستانی میزائل کے پاکستان کی حدود میں گرنے کا واقعہ ہو پاکستان نے ہمیشہ علاقائی اور بین الاقوامی امن کے وسیع تر مفاد میں کام کیا ہے۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ بھارت کے نزدیک اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا ہی ہر حل ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی جبر پر شدید تنقید اور سخت ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ماہرین نے مشاہدہ کیا کہ بھارتی حکومت زمینی حقائق پر پردہ ڈالنے اور پاکستان کے خلاف جھوٹے بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے بندوقوں اور دھمکیوں (سخت قوانین کی شکل میں) کا استعمال کرکے کشمیری صحافیوں کی آواز کو خاموش کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ایک سابق بھارتی صحافی گیتا نے دی وائر کو بتایا کہ اگر ہم پولیس کے الزامات کو مان بھی لیں تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پولیس کو پچھلے سال درج ہونے والے مقدمات میں کارروائی کرنے اور گرفتار کرنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟، پولیس کے رویے سے یہ واضح ہوتا ہے ے کہ وہ نہیں چاہتے کہ فہد صحافت کرے۔
سویڈن میں مقیم ایک نامور ماہر تعلیم اشوک سوین کا کہنا ہے کہ فہد کی گرفتاری سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران حکومت کشمیر کو بین الاقوامی ایجنڈے سے دور رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہےاور یہی وجہ ہے کہ وہ مقبوضہ جمو ں و کشمیر میں ہر قسم کی آزاد صحافت کو روکنے پرتلی ہوئی ہے ۔اپسالا یونیورسٹی میں امن اور تنازعہ کے پروفیسر اشوک نے کہا کہ کشمیر میں صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کی بار بار گرفتاریوں اور ہراساں کرنے کا مقصد خوف کا ماحول پیدا کرنا ہے تاکہ مقامی آزاد صحافت ختم ہو جائے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے پروگرام کے ڈائریکٹر کارلوس مارٹنیز ڈی لا سرنا ن نے نیویارک میں جاری ایک بیان میں فہد کی گرفتاری اور ہراساں کرنے کی شدید مذمت کی اور ہندوستانی انتظامیہ سے کہا کہ وہ قومی سلامتی کے نام پر صحافت کو مجرمانہ قرار نہ دے۔