پنجاب اسمبلی میں ن لیگی اتحادی امیدوار حمزہ شہباز شریف اور پی ٹی آئی و ق لیگی امیدوار چودھری پرویز الٰہی کے درمیان وزارت اعلیٰ کے لئے انتخاب بخیروخوبی انجام پا گیا۔ الیکشن ڈے کے آغاز تک چودھری پرویز الٰہی کو حمزہ شہباز پر برتری حاصل تھی۔ پی ٹی آئی کے 176 اور ق لیگ کے 10 اراکین کو ملا کر چودھری صاحب کو وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے لئے درکار 186 ممبران کی حمایت حاصل تھی جبکہ ان کے حریف حمزہ شہباز کے پاس 179 اراکین تھے۔ اس سے ایسا لگ رہا تھا کہ چودھری پرویز الٰہی آسانی سے وزیراعلیٰ بن جائیں گے۔ اس دوران خوب بیان بازی جاری رہی۔ رانا ثناء اللہ نے 4،5 اراکین کے ادھر اُدھر ہو جانے کی بات کی تو پی ٹی آئی و ق لیگ کی صفوں میں ہلچل مچ گئی۔ اس ہلچل سے پہلے میاں جمیل شرقپوری کے پیسے لے کر مسلم لیگ ن چھوڑ کر چودھری پرویز الٰہی کا حمایتی بننے کی خبر سامنے آ گئی۔ شرقپوری صاحب کی چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ ملاقات کی تصویر بھی پریس میں چھپی تو ایسا لگا کہ ن لیگ میں دراڑیں پڑنے لگی ہیں پھر رانا ثنا ء اللہ کے کچھ ممبران کے ادھر اُدھر ہونے کی خبر کو عدلیہ کے سامنے لے جایا گیا پھر پی ٹی آئی کے ایک ممبر کے 50 کروڑ لے کر ترکی چلے جانے کی خبر نے پی ٹی آئی کی صفوں میں اشتعال پیدا ہوا۔ مسعود صاحب کے ترکی چلے جانے اور 50 کروڑ روپے لینے کی تصدیق نہیں ہو سکی لیکن جمیل شرقپوری کے بکنے اور رقم وصول کرنے کے ثبوت کے طور پر ایک آڈیو لیک ہوئی جس میں شیخ رشید، مبینہ طور پر چودھری پرویز الٰہی کے فرنٹ مین کے ساتھ گفتگو سامنے آئی۔ شیخ صاحب اس شخص سے جو گفتگو کر رہے تھے اس کے مطابق فرنٹ مین نے رقم شرقپوری تک پہنچا دی ہے۔ حالیہ انتخابات میں ان دو افراد کے ادھر اُدھر ہونے، خریدے بیچے جانے کے علاوہ کسی اور ممبر کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات نہیں ہوئی۔ الیکشن ڈے سے پہلے کی رات آصف علی زرداری نے ق لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین کے ساتھ طویل ملاقات کی جس کے نتیجے میں الیکشن ڈے پر ق لیگ کے سربراہ کی طرف سے ایک خط ڈپٹی سپیکر (جو الیکشن کنڈکٹ کر رہے تھے) کو بھجوایا جس میں اطلاع دی گئی کہ ق لیگ کے 10 ممبران اس انتخاب میں مسلم لیگ ن کے امیدوار حمزہ شہباز کو ووٹ دیں گے۔ اس خط کا انکشاف ہوا تو مونس الٰہی اسمبلی سے روانہ ہوئے تاکہ چودھری شجاعت حسین سے خط کے مندرجات کی تردید کرا سکیں کہا گیا کہ چودھری شجاعت سے پیغام ریکارڈ کرا لیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ مونس الٰہی نے حامد میر کے ساتھ انٹرویو میں بتایا کہ ’’ہم ہار گئے زرداری جیت گئے‘‘ گویا پرویز الٰہی 186 کی اکثریت کھو چکے تھے لیکن جب ووٹنگ ہوئی تو ق لیگ کے 10 ممبران نے پرویز الٰہی کو ووٹ دے دیا۔ لیکن ڈپٹی سپیکر نے 10 ووٹ مسترد کر کے 179 ووٹوں سے حمزہ شہباز کی جیت کا اعلان کر دیا۔ سیاست کے بنتے بگڑتے دائرے اب بھی جاری ہیں، سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی سپریم کورٹ جا چکے ہیں اور بنچ نے معاملات دیکھنا شروع کر دیئے ہیں۔ سیاسی معاملات طے ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی دشنام و فساد کی سیاست کو خاصی بلندی تک لے جا چکی ہے۔ تمام ادارے اس کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ عدلیہ ہو یا انتظامیہ، الیکشن کمیشن ہو یا پولیس ہر ادارہ اور ہر قابل ذکر شخص ان کی تنقید کی زد میں ہے۔ عمران خان اس ہر شے کو بلڈوز کرتے چلے جا رہے ہیں وہ ’’میں نہ مانوں‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ انہیں 2018 میں سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے ایوانِ اقتدار میں پہنچایا گیا۔ زیادہ دور کی بات نہیں ہے اسی پنجاب اسمبلی میں 2018کے انتخابات میں سب سے بڑی پارلیمانی جماعت کون تھی مسلم لیگ ن سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی تھی لیکن عوام کی آواز کو نہیں سنا گیا۔ عوامی مینڈیٹ کی توہین کی گئی اور پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی گئی۔ اس سے پہلے 2014-15 میں نوازشریف کے خلاف مہم چلائی گئی اور انہیں ایک انتہائی متنازع اور بے اصولی فیصلے کے ذریعے منظر سیاست سے ہٹایا گیا۔ انہیں پارٹی لیڈرشپ سے بھی معزول کیا گیا حتیٰ کہ انہیں میڈیا سے بھی غائب کر دیا
گیا۔ ہمارے ہاں ایسا پہلی مرتبہ نہیں کیا گیا۔ اس سے پہلے ماضی قریب میں ہی نہیں بلکہ ماضی بعید سے ہی، 1958 سے ’’طاقتور‘‘ سیاست کا کھیل کھیلتے رہے ہیں۔ کنگز پارٹیوں کی تشکیل ان کا من پسند کھیل رہا ہے۔ ہمارے جرنیل براہ راست بھی حکومت پر قابض ہوتے رہے ہیں۔ میجر جنرل سکندر مرزا کی جنرل ایوب کو مارشل لا لگانے کی دعوت سے لے کر جنرل مشرف تک ہمارے جرنیل عوامی حکمرانی پر ڈاکہ زن ہوتے رہے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب ہوں یا جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف، تمام جرنیل من مانیاں کرتے رہے ہیں۔ ہماری عدلیہ بھی ان کی شریک کار رہی ہے۔ مولوی تمیزالدین کیس میں نظریہ ضرورت متعارف کرانے کے بعد سے اب تک یہی نظریہ عدلیہ کے فیصلوں میں کارفرما نظر آتا ہے۔
آج ہماری سیاست جس مقام پر، جس پست مقام پر کھڑی نظر آ رہی ہے یہ جمہوری نظام کے باعث نہیں ہے بلکہ ایسا ہمارے مقتدر حلقوں کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے۔ 1958 سے لے کر ہنوز ہماری سیاست پر ایسے ہی عوامل کارفرما رہے ہیں جو ہمارے مقتدر حلقوں نے پیدا کئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا نوازشریف اور اب عمران خان، یہ سب مقتدرہ کے تعاون اور آشیرباد کے ذریعے ہی سیاست کے سنگھاسن تک پہنچے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ سب جو مقتدرہ کے ذریعے چمکے بالآخر اسی کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور نوازشریف اپنی اپنی سزا بھگت چکے۔ بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا گیا۔ نوازشریف کو سزایافتہ کر کے منظر سے ہٹا دیا گیا۔ عمران خان ابھی حتمی انجام تک نہیں پہنچے۔ وہ ابھی مقتدرہ سے لڑنے کے لئے مستعد نظر آ رہے ہیں۔
جمعہ کے روز پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ کسی بھی پارلیمانی اور جمہوری روایات کے مطابق نہیں ہے لیکن جاری سیاسی روایات کا عکاس ہے۔ چودھری شجاعت حسین کے خط نے اکثریت کو اقلیت میں بدلا۔ یہ کارروائی سب پر بھاری آصف علی زرداری نے انجام دی۔ پی ٹی آئی اب تڑپ رہی ہے دشنام طرازی کر رہی ہے کیا ایسا ہی کچھ زرداری صاحب اس سے پہلے پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر سینٹ الیکشن میں نہیں کر چکے؟ آصف علی زرداری نے 36 ووٹوں سے 64 ووٹوں والے میر حاصل بزنجو کو ہرا کر صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ نہیں بنوایا تھا۔ اس وقت پی ٹی آئی ان کی ہمنوا تھی۔ آج ایسا ہی کرتب انہوں نے پرویز الٰہی کو ہروا کر دکھایا ہے تو پی ٹی آئی چیخ و پکار مچا رہی ہے۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کون ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے کارندے۔ ق لیگ کیا ہے۔ کنگز پارٹی۔ اس سے پہلے ن لیگ بھی اسی مقام عالیہ پر فائز تھی۔ اس سے پہلے جائیں تو ذوالفقار علی بھٹو، فاطمہ جناح کے خلاف جنرل ایوب خان کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے۔ کنونشن مسلم لیگ کنگز پارٹی تھی اور یہ اس کے اہم ممبر تھے۔ ایوب خان کے دست راست۔ اس کے وزیر خارجہ۔ سیاست کے اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ آج عمران خان ریاستی اداروں کو دہائی دے رہے ہیں ان کے نیوٹرل ہونے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، نیوٹرلز کبھی بھی نیوٹرل نہیں رہے وہ صرف اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرتے ہیں، کبھی چھڑی دکھا کر، کبھی گاجر دکھا کر، کبھی غیرجانبدار ظاہر کر کے۔ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ اسٹیبلش رہتی ہے وہ معاملات کو کبھی ہاتھ سے نکلنے نہیں دیتی۔ ان کے ہاتھوں پرورش پانے والے سیاستدان، ان کی عاطفت سے کبھی نہیں نکلے۔ اور جو نکلنے کی کوشش کرتے ہیں وہ ذوالفقار علی بھٹو اور محمد نوازشریف بنتے ہیں اور عمران خان بننے کی اسی راہ پر گامزن نظر آ رہے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ آج بھی دہرا رہی ہے۔
ہماری سیاسی تاریخ دہرا رہی ہے؟
08:37 AM, 24 Jul, 2022