جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔تمام تر سیاسی مخالفتوں اور پراپیگنڈوں کے باوجود لاہور کے لوگ شہباز شریف کی کارکردگی اور خدمات کو نہیں بھلا سکے۔شہباز شریف نے لاہور کو خوبصورت بنانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی تھی۔وہ ایک ان تھک شخص تھا۔ترقیاتی کاموں کی چھوٹی چھوٹی جزیات پر بھی نظر رکھتا تھا، اور ان کی رفتار ایسی کہ چین جیسا ملک اسے ”شہباز سپیڈ“ کا نام دینے پر مجبور ہو گیا۔ میری رہائش گاہ لاہور کے نیو گارڈن ٹاون میں واقع ہے۔ عموماً میں جب گھر سے گلبرگ کی لبرٹی مارکیٹ یا مین مارکیٹ کی طرف نکلتا ہوں تو دو رویہ سڑک کے درمیان میں سرسبز اور خوبصورت پودے لہرا رہے ہوتے ہیں اور سڑک کے کنارے مسافروں کے بیٹھنے کے لیے خوبصورت اور ماڈرن انداز کے بس سٹاپ نظر آتے ہیں۔ یہ سب شہباز شریف کی حس لطیف کی یاد دلاتے ہیں۔برکت مارکیٹ کراس کرتے ہی آپ کلمہ چوک کے انڈر پاس (under pass) پر پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا خوبصورت اور کشادہ انڈر پاس آپ کو شاید ہی لاہور میں کہیں نظر آئے۔اس انٖڈر پاس کے اُوپری حصے پر آپ کو ہر وقت چلتی میٹر و نظر آئیگی۔ میں نے اس میٹرو کو کبھی خالی نہیں دیکھا بلکہ ہر وقت مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوتی ہے۔سوچتا ہوں لاہور شہر کے ان غریب اور بے نوا مسافروں کو شہباز شریف نے کتنی بڑی سہولت مہیا کر دی، سچ پوچھیں یہ ایک قسم کا صدقہ ء جاریہ ہے۔لاہور شہر جو اپنے ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے اس میں ایک عام آدمی کے لیے مسافت کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے۔
لوگ چنگ چیوں میں گھسے پھرتے ہیں جس میں بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ جنہوں نے مستقلاً سفر کرنا ہوتا ہے جیسے کہ دفاتر میں کام کرنے والے لوگوں نے، تو انھوں نے موٹر سائیکل خرید ے ہوئے ہیں۔زیادہ تر نے قسطوں پر۔ لاہور شہر میں جس ٹریفک اشار ے پر رکیں، آپ کو درجنوں دھواں چھوڑتے موٹر سائیکل اور چنگ چیاں نظر آئیں گی۔ یہ دھواں لاہور شہر کی فضاوٗں کو مسلسل زہر آلود کرتا رہتا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اپنا لاہور شہر آلودہ شہروں کی فہرست میں ہمیشہ یاتو پہلی پوزیشن پر ہوتا ہے یا دوسری تیسری پوزیشن پر۔ لیکن حکمرانوں کو ان آلودہ فضاوٗں سے کیا سروکار، وہ یا تو بنی گالہ کی تازہ اور معطر فضاوٗں میں شب و روز گزارتے ہیں یا عیدین میں نتھیا گلی کی شفاف اور دھلی فضاوئں میں
سانس لیتے ہیں۔آپ کو معلوم تو ہوگا ہی کہ اس ملک کی حکمران کلاس کے سب کے مری اور اس ملک کے دوسرے پُر فضا پہاڑی علاقوں میں بنگلے ہیں۔ تو میں بات کر رہا تھا لاہور میں چلنے والی میٹرو کی۔سچ پوچھیں اس عوام کی سواری کے طور پر کام کرنے والی میٹرو پر اُٹھنے والے اخراجات بھی اس ملک کی حکمران کلاس کو بہت بھاری لگتے ہیں۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ یہ کسی وقت بند کر کے کھڑی ہی نہ کر دی جائے کیونکہ اس کی maintenance پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی۔ اس بات کا اندازہ تو آپ کو اس کے سٹیشنوں کی صورت حال ہی سے بآسانی ہو سکتا ہے۔ویسے تو شہباز شریف نے لاہوریوں کے لیے بے شمار منصوبے بنائے ہیں اور انہیں پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے لیکن اُن کا بنایا گیا ایک اور اورہیڈ برج (overhead bridge) جو لاہور کی مشہور فردوس مارکیٹ کو کیولری گراونڈ مارکیٹ سے ملاتا ہے، وہ بھی ایک یاد گار منصوبہ ہے۔یہ منصوبہ بھی مختصر ترین عرصہ میں پایہ تکمیل کو پہنچا تھا۔ اس اوور ہیڈ برج کا سرکاری نام تو کچھ اور ہے لیکن عوام الناس نہ جانے کیوں اسے ”ہنی برج (Honey bridge)“ کے نام سے پکارتے ہیں۔عام لوگ یہ کہتے ہیں کہ شہباز شریف کسی زمانے میں ڈیفنس لاہور کے علاقے میں کافی جایا کرتے تھے۔ فردوس مارکیٹ اور کیولری گراونڈ مارکیٹ کے درمیان پڑنے والاپھاٹک ان کی آمد و رفت میں خاصا رخنہ ڈالتا تھا۔
علاقے کے لوگوں کے مقدر جاگے،شہباز شریف کو بھی اس پھاٹک پر رکاوٹ ملنے لگی۔یہاں مجھے پنجابی کا ایک محاورہ یاد آرہا ہے، ”عاشقاں کمراں کسیاں تے دلی ڈھائی کوہ“،یعنی جب عاشقوں نے دلی جانے کی ٹھانی تو دلی کا فاصلہ صرف ڈھائی تین میل رہ گیا۔ سو شہباز شریف نے اس وقت کے ریکارڈ مختصر ترین عرصہ میں یہ اوور ہیڈ برج بنوا دیا جو آج بھی عوام کے لیے سہولت کا باعث ہے۔ نہ جانے شہباز شریف اس برج سے اب گزرتے ہیں کہ نہیں۔وقت بڑی ظالم چیز ہے انسانوں کے راستے تبدیل کر دیتا ہے۔جن لوگوں نے شہباز شریف کو ترقیاتی کام کراتے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ ایک جنوں رواں ہوتا ہے جس کی خواہش ہوتی ہے کہ سالوں کا کام مہینوں میں اور مہینوں کا کام ہفتوں میں اور ہفتوں کا کام دنوں میں۔شہبا شریف نے شہر لاہور کو دو اہم ترین منصوبے دئیے۔ اُن میں سے ایک جو وقت کی اہم ضرورت تھا اور وہ تھا ”اورنج ٹرین کا منصوبہ“ آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ ٹرین ڈیزل یا پٹرول پر نہیں چلتی، یہ صرف بجلی سے چلتی ہے۔ظاہر ہے اس لیے کوئی فضائی آلودگی نہیں پھیلاتی۔آپ کو معلوم ہو گا کہ جاپان میں کوئی ٹرین یا بس ڈیزل یا پٹرول پر نہیں چلتی۔ سب کی سب ٹرینیں بجلی پر اور پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال ہونے والی بسیں گیس پر۔پوری دنیا پر نگا دوڑا لیں،لاہور شہر سے ایک چوتھائی آبادی والے شہروں میں بھی پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے بجلی سے چلنے والی ٹرینیں چلتی ہیں۔ موجودہ حکومت کو یہ ٹرین جو عوام کی سہولت کا منصوبہ ہے بہت بھاری لگ رہا ہے اور اس سے چلایا نہیں جا رہا۔اسی طرح شہباز شریف نے لاہور شہر کو ایک ماڈرن اور محفوظ شہر بنانے کے لیے ”لاہور سیف سٹی پراجیکٹ“ دیا جس پر اربوں روپے خرچ ہوئے۔ یہ نہ صرف لاہور جیسے بڑے شہر کی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ تھا بلکہ اس شہر میں ہونے والے جرائم کی سرکوبی اور تفتیش کے لیے ممد و معاون تھا۔ یہ منصوبہ بھی اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ سڑکوں اور چوراہوں سے حکومتی نا اہلی کیوجہ سے کیمرے چوری ہو چکے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں۔ غریب قوم قرضے اتارتی پھرے گی۔آخر میں وہ اہم بات جس سے مجھے یہ کالم لکھنے کی سوجھی، وہ ہے موجودہ حکومت کا کورونا جیسی مہلک بیماری سے اس بھونڈے انداز میں نبرد آزما ہونا۔عمران خان صاحب کہتے ہیں کہ وہ انگلینڈ میں کافی عرصہ رہے ہیں اور وہ اسکے نظام کو بخوبی جانتے ہیں۔ اب ذرا انگلینڈکی کورونا مخا لف مہم کو دیکھیں اور پھر ادھر اپنے پاکستان میں عمران خان کی حکومت کی کارکردگی دیکھیں۔پاکستان میں اس وباء کے خلاف مہم کا انچارج ادارہ این سی او سی (National command eration centre op)ہے، جس کے آج کے جاری ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں کل آبادی کا 3.27% حصہ مکمل vaccinated ہو چکا ہے۔ دوسری طرف انگلینڈ کی آبادی کا 69.1% حصہ مکمل طور پر vaccinated ہو چکا ہے۔کیا اس data سے اپنی حکومتی کارکردگی واضح نہیں ہے۔یہاں مجھے ڈینگی (Dengue) وباء کے خلاف شہباز شریف کی کارکردگی یاد آ رہی ہے۔ وہ شخص ہر روز صبح سات بجے حکومت پنجاب کے تمام سیکریٹریز کے ساتھ میٹنگ کرتا تھا اور پھر سارا دن دیوانوں کی طرح اس وباء کے خلاف اپنی حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیتا تھا۔ پھر نتیجہ ساری دنیا کے سامنے تھا۔
شہباز شریف! لاہور آپ کو یاد کرتاہے۔