لاہور: سینئر صحافی سہیل وڑائچ کے مطابق ملک میں سیاسی صورتحال کے پیچھے ریاست کی نت نئی بدلتی حکمت عملی ہے۔جب نواز شریف نے لندن سے آنا تھا تو ریاستی حکمت عملی یہ نظر آ رہی تھی کہ سارا اقتدار و اختیار بائو جی کی جھولی میں ڈال دینا ہے، اس حد تک کہا گیا کہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کو اقتدار نہیں دینا اور باقی سارے ریاستی انڈے بھی بائو جی کے ٹوکرے میں ڈال دینے ہیں۔ کچھ ہفتوں بعد سوچ میں پھر تبدیلی آئی، پیپلزپارٹی کو
سندھ میں دبانے کی حکمت عملی بدل گئی اور کہا جانے لگا کہ سپلٹ مینڈیٹ آئے گا۔
سینئر صحافی نے اپنے کالم میں لکھا وزیراعظم نواز شریف اور صدر آصف زرداری بنیں گے، اندازہ یہ لگایا گیا کہ 70 سے 80 نشستیں ن لیگ لے گی اور 50 سے 60 نشستیں پیپلزپارٹی لے گی یوں انکی مخلوط حکومت بنائی جائے گی پھر یکایک نئی حکمت عملی سامنے آئی کہ تحریک انصاف کو آزادانہ موقع ملا تو وہ انتخابات سویپ کر جائے گی اس لئے انتخابات کو ملتوی کروایا جائے، اس کوشش کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کامیاب نہ ہونے دیا، اسی دوران جسٹس اطہرمن اللہ نے ایک اہم سائفر مقدمے میں عمران خان کو بری کر دیا ساتھ ہی ساتھ پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو ریلیف دیا تو ریاست اور عدلیہ میں مکمل ٹھن گئی ایسی تجاویز تک سامنے آنے لگیں کہ ججوں کو فارغ کیسے کیا جائے مگر پھر عدلیہ اور ریاست میں درمیانی راستہ نکال لیا گیا۔
تحریک انصاف سے بلے کا نشان واپس لیا گیا تو پھر سے حکمت عملی میں تبدیلی نظر آنا شروع ہو گئی، اب دوبارہ سے جہانگیر ترین اور علیم خان کی آئی پی پی کی اہمیت بڑھ گئی ہے، پہلے صرف نون اور بائو جی کو سب کچھ دینے کی بات ہو رہی تھی، اب کہا جا رہا ہے کہ طاقت کا توازن آزاد امیدواروں کے حق میں آ رہا ہے۔ ریاست کے اہلکار خوش ہیں کہ اگر آزاد امیدوار زیادہ تعداد میں جیت کر سامنے آ گئے تو انہیں ہینڈل کرنا آسان ہو جائیگا ۔تازہ ترین تبدیلی جو حکمت عملی میں آ رہی ہے یہ کہ الیکشن کے قریب سب کو فری ہینڈ دیا جائے کیونکہ اب سوچ یہ ہے کہ نون کو بھی اتنا طاقتور نہیں کرنا کہ وہ کل کو ریاست کے خلاف کھڑی ہوسکے۔
دوسری طرف نون لیگ کی حکمت عملی شروع ہی سے یہ تھی کہ انتظامیہ انکی مرضی کی ہو اور وہ وقت آنے پر انکی بھی مدد کرے۔ ابھی تک نون کو اپنی مرضی کی انتظامیہ کا فائدہ ہو رہا ہے حالانکہ ریاست کی حکمت عملی اب نون کی اندھا دھند حمایت نظر نہیں آرہی ۔اب اگر ریاست کی بدلتی حکمت عملیوں کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آرہا ہے کہ سیاسی اہداف میں مکمل کنفیوژن ہے۔ کبھی کچھ اہداف مقرر کئے جاتے ہیں اور کبھی کچھ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی بدلتی حکمت عملیوں میں کسی بھی واضح پلان پر عملدآمد ممکن نہیں رہتا۔
الیکشن کا رزلٹ کیا ہوگا ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا، یہ بات البتہ طے ہے کہ الیکشن جیسا بھی ہو بہرحال تبدیلیاں ضرور لاتا ہے۔ فرض کر لیں کہ اگر واقعی آزادوں کا میلہ لگ گیا اور ہم پھر 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات والی صورتحال میں پہنچ گئے تو ہم نے کئی دہائیوں کا جو سیاسی سفر کیا ہے کیا وہ رائیگاں نہیں جائیگا؟یہ درست ہے کہ ہمارے اہل سیاست میں خامیاں ہیں کسی ملک کے سیاستدانوں میں یہ خامیاں کم ہوتی ہیں کسی ملک میں زیادہ لیکن سیاست کرنا اور ملک چلانا بہرحال انہی کا منصب ہے، جس طرح ایک بہترین انجینئر سے کسی مریض کا آپریشن کروانے کا رسک نہیں لیا جا سکتا بلکہ اس کیلئے بدترین ڈاکٹر بھی دستیاب ہو تو اسی سے رجوع کرنا پڑتا ہے، بالکل اسی طرح سیاست ، سیاستدانوں کے علاوہ کسی اور کے حوالے نہیں کی جاسکتی ۔
سیاسی جماعتیں برسوں بلکہ دہائیوں میں بنتی ہیں، ان میں عوام کی خواہشوں کی سرمایہ کاری ہوتی ہے، یہ بھی دوسرے محترم اداروں کی طرح بڑی محترم ہونی چاہئیں۔ آزاد امیدواروں کا میلہ لگے گا تویہ سیاسی جماعتوں، سیاست دانوں اور سیاست ، سب کیلئے برا شگون ہو گا ،سیاست کمزور ہو گی تو ملک کی سول سوسائٹی اور بالآخر ریاست کمزور ہو گی۔