علامہ غلام احمد پرویزؔ مرحوم قرآنی فکر کے علم بردار تھے۔ ان کی بے شمار تصانیف ہیں۔ ان کا ایک ویڈیو کلپ چند روز قبل سوشل میڈیا پر دیکھا۔ اس ویڈیو کلپ میں وہ قرآن میں بیان کئے گئے لفظ من یشاء کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان فرما رہے تھے۔ یہاں پرویز ؔصاحب نے سورہ روم کی آیت نمبر ۵ تلاوت کی۔پرویزؔ صاحب کے مفہوم القرآن میں سورہ روم کی آیت نمبر۵ کا مفہوم یوں بیان ہوا ہے کہ ”یاد رکھو!خدا کی یہ تائید و نصرت (جس کی رو سے مومنین کو کامیابی ہوگی)اس کو مل سکتی ہے جو خدا کے قانون کے مطابق اسے حاصل کرنا چاہے، یہ تائید و نصرت، ایک طرف اپنی قوت اور غلبہ سے مخالفین کو کمزور کردیتی ہے اور دوسری طرف جماعتِ مومین کے لیے سامانِ رحمت و ربوبیت بہم پہنچادیتی ہے“۔ پرویز ؔ صاحب کا استدلال یہ ہے کہ خدا کی جو مدد لینا چاہتا ہے خدا اس کی مدد کرتا ہے۔ پھر خدا جو مدد فراہم کرتا ہے اس میں یہ نہیں ہوتا کہ ہم اور آپ بیٹھے رہیں اورخدا کے فرشتے آکر سارا کچھ کرجاتے ہیں، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ خدا کی مدد سے میدانِ جنگ میں پاؤں جمے رہتے ہیں اور اُن میں لغزش نہیں پیدا ہوتی ہے۔یہ ہے نصرت خدا کی کہ انسان ہمت کرے تو خدا کی مدد اسے حاصل ہوتی ہے۔ متی کی انجیل باب7 میں سیدنا مسیح علیہ السلام کا پُرحکمت خطبہ درج ہے کہ ”مانگو تو تم کو دیا جائے گا۔ ڈھونڈو گے تو پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمھارے واسطے کھولا جائے گا۔کیونکہ جو کوئی مانگتا ہے اُسے ملتا ہے۔اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے۔اور کھٹکھٹاتا ہے اس کے واسطے کھولا جائے گا۔تم میں ایسا کون سا آدمی ہے کہ اگر اس کا بیٹا اس سے روٹی مانگے تو اسے پتھر دے۔ یا اگر مچھلی مانگے تو اسے سانپ دے۔ پس جب کہ تم بُرے ہوکر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو تمھارا باپ(خالق) جو آسمان پر ہے اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں کیوں نہ دے گا۔
وطنِ عزیز اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین بحران سے گزر رہا ہے۔ پہلے بتایا جارہا تھا کہ عالمی مالیاتی اداروں سے معاملات طے ہوجانے کے بعد ہی دوست ممالک بھی اس مشکل گھڑی میں ہاتھ
پکڑیں گے۔ لیکن اب سعودی عرب جیسے عزیز دوست نے بھی صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اب امداد یا قرض غیر مشروط نہیں ہوگا۔سعودی وزیر خزانہ محمد بن عبداللہ الجدان نے ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کسی شرط کے بغیر پیسے دے دیا کرتے تھے۔اب ایسا نہیں ہوگا۔ سعودی عرب اپنے لوگوں سے ٹیکس لیتا ہے، جو ہم سے امداد لیتے ہیں انھیں بھی یہ ہی کرنا ہوگا۔ ٹیکس نظام میں اصلاحات لانا ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ترکیہ اور مصر کی امداد جاری رہے گی، انہیں بھی چاہیے کہ معاشی اصلاحات کریں۔ ایک طرف امداد اور قرض دینے والے ممالک یہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں اور ہمارے یہاں حکمرانوں اور افسروں کے کَرّوفَر دیکھئے تو لگتا ہے کہ پوری دنیا کے وائسرائے یہ ہیں۔ شاہانہ پن کی صرف ایک مثال ملاحظہ فرمائیں جیسا کہ جناب لیاقت علی ایڈووکیٹ نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں بتایا کہ ”لاہور جم خانہ کا شمار پاکستان کے اشرافیائی کلب میں ہوتا ہے۔ اس کے ارکان میں بڑے بیوروکریٹس، جنرلز اور بزنس میں شامل ہیں۔ اس کلب کو 1030 کنال، ایک مرلہ اور 80 فٹ زمین پانچ ہزار روپے سالانہ لیز پر دی گئی ہے اور یہی لیز ایگریمنٹ (2000-2050) پچاس سال کے لیے ہے۔یہ زمین اپر مال پر موضع میا ں میر کی حدودمیں واقع ہے اور اس کی مارکیٹ ویلیو اربوں روپے میں ہے“۔ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ 6 ماہ کے دوران ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کی لگثرری گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بیرون ممالک سے درآمد کی گئی ہیں۔
اس میں کیا شک کہ موجودہ صورتحال نتیجہ ہے ملک کی معیشت اور تجارت پر قابض طبقات کا۔ مگر ہم عوام میں سے کتنے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ ہماری فصلوں پر وڈیرے قابض نہ ہوں اور اس کے خلاف انہوں نے آواز اُٹھائی ہو۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ملک میں اشیاء خورونوش کی قیمتیں ہماری قوتِ خرید کے مطابق ہوں اور ہم نے صنعت کاروں اور تاجروں کے کارٹل اور ذخیر اندوزی کے خلاف ملک گیر تحریک چلائی ہو۔ ڈاکٹروں اور دوا ساز کمپنیوں نے غریبوں پر جو ستم ڈھا رکھے ہیں کتنے لوگ اس ظلم کے خلاف متحدہوکر آواز اٹھاتے ہیں۔ ملازمت کے مواقع محدود ہوتے جارہے ہیں مگر ہم میں سے کتنے ہیں کہ اپنے بچوں کو کوئی ہنر سکھانے پر تیار ہیں۔ کارخانے دار اپنے نفع کا نقصان کم کرنے کے لیے مزدوروں کو فارغ کررہا ہے مگر مزدور اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے پر تیار نہیں ہے۔ اس کے باوجود ہم اُمید یہ رکھتے ہیں کہ خدا ہماری مدد کرے گا۔ ہم نے تو حالیؔ کی یہ نصیحت بھی فراموش کردی کہ:
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
جو عمریں مفت گنوائے گا
وہ آخر کو پچھتائے گا
کچھ بیٹھے ہاتھ نہ آئے گا
جو ڈھونڈے گا وہ پائے گا