تحریر: زینب وحید
سنگلاخ پہاڑوں کے اوپر کبھی ہوائی جہاز کی آواز سنتے ہی ننھی زریش صحن میں آجاتی ۔ آواز کی تلاش میں جب اُس کی آنکھیں اڑتے ہوئے جہاز کو پا لیتیں تو خوشی سے ننھے ننھے گداز ہاتھوں تالیاں بجانے لگتی۔ ان گنت خواب اس کی آنکھوں میں اتر آتے جن کو وہ الفاط کا روپ نہ دے پاتی۔ زریش کو دیکھ کر اُس کی ماما بھی کمرے سے نکل کر صحن میں آجاتیں، وہ زریش کے دل کی بات جان لیتی اور بے اختیار دعا کرتی کہ پاک پرودگار، اپنی رحمت سے اس دھرتی کو امن دے، یہاں کے بچوں کو علم کی روشنی دے۔ یہ صرف اکیلی زریش کی ماما کی دعا نہیں تھی بلکہ پاکستان کے قبائلی اضلاع کے آنگنوں میں ہر شب و روز ان گنت ہاتھ اسی طرح امن و امان کے دعا کی خاطر اٹھتے اور ان گنت جبینیں سکون کے لئے رب کے حضور سجدہ ریز ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان ماؤں کی دل کی باتیں سن لیں اور پاک فوج کو رحمت بنا کر بھیجا۔
پاک فوج نے امن و خوشحالی کے لئے دن رات کوششیں کی ہیں۔ ضلع کُرم کی نوجوان نسل کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے پاڑا چنار میں فن کا شاہکار ایجوکیشن کمپلیکس تعمیر کیا، منصوبے پر 450 ملین روپے لاگت آئی ہے جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے الگ الگ سیکشنز قائم کئے گئے ہیں۔ وسیع دلان، گیلریاں، سائنس لیبارٹری اور جدید لائبریری قائم کی گئی ہے۔ اس ادارے میں 1100 سے زائد طلباء انرولڈ ہو چکے ہیں۔ جہاں کبھی خوف کا راج تھا، اب وہاں اسپورٹس فیسٹیولز ہو رہے ہیں، ادبی میلے ہیں، بزم ادب میں طلباء کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آ رہی ہیں، جہاں بارود کی بو تھی، وہاں اب گلاب اور رات کی رانی کی مہک ہے۔ جہاں ہرطرف اسلحہ لہرایا جاتا تھا، اب اس دھرتی کے نوجوانوں کے ہاتھ میں کتابیں ہیں۔
صوبے کی ترقی کے لئے بے شمار اقدامات ہو رہے ہیں جن میں تربیت، صحت، فوج میں پیشوں کا بندوبست، انفرااسٹرکچر کی ترقی اور دیگر مالی بہتری جیسے تمام شعبے شامل ہیں۔ پاک فوج ان اضلاع کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لئے بھی بھر پور کردار ادا کر رہی ہے۔ نئے ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں مقامی ترقی اور خوشحالی کے لئے متعدد ترقیاتی منصوبے جاری ہیں۔ یہاں ترقیاتی منصوبوں کی ایک نئی لہر آچکی ہے جس کا مقصد خطے میں معمولات زندگی بحال کرنا ہے۔ بحالی کی جامع حکمت عملی کے تحت متعدد ترقیاتی منصوبے چل رہے ہیں جس سے یہاں کے مکینوں کا معیار زندگی بلند ہو رہا ہے، نئی نسل کےلئے روزگار کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں اور پورا علاقہ معاشی خوشحالی کی طرف گامزن ہے۔
پاکستان آرمی نے نئے ضم شدہ اضلاع میں 2512 ترقیاتی منصوبے شروع کئے جن میں سے 1838 مکمل اور 674 جاری ہیں۔ ان پروجیکٹس پر تقریباً 95 ارب روپے لاگت آئی ہے۔ فوج نے سول انتظامیہ اور حکومت کے تعاون سے جنوبی وزیرستان میں 250 کنال پر "وانا دی ایگریکلچر پارک" بھی قائم کیا ہے جس میں 108 دکانیں اور 75 گودام ہیں۔ قبائلی ضلع کرم میں پاک فوج کے زیر تعمیر ڈوگر مارکیٹ ترقیاتی منصوبوں میں شامل ہے جس کا مقصد مقامی لوگوں کو معاشی مواقع فراہم کرنا ہے، اسی طرح مکین مارکیٹ کمپلیکس میں کل 728 دکانیں ہیں جو مقامی لوگوں کو کاروبار کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ انجینئرز نے میرانشاہ مارکیٹ میں 1344 دکانوں پر کمپلیکس تعمیر کیا ہے جس سے دور دراز کی مارکیٹس پر انحصار ختم ہو گیا ہے، اس کے ساتھ سات پاک فوج نے سیلاب سے بچاؤ، صحت اور کھیلوں کے میلے سمیت دیگر قدرتی آفات میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ آرمی کے جوانوں نے آئی ڈی پیز کی بحفاظت گھروں کو واپسی یقینی بنائی ہے اور رہائشی علاقوں کو کلیئر کر دیا ہے۔ آرمی کے تعاون سے قائم مفت آئی کیمپوں میں آنکھ کی سرجری کے 825 آپریشن ہو چکے ہیں اور بارہ ہزار سے زائد مریضوں کو علاج مکمل ہو گیا ہے۔ قبائلی اضلاع میں امن قائم کرنے کے بعد عوام کی فلاح وبہبود پر تیزی سے کام جاری ہے۔ حکومت اور سیکیورٹی فورسز نے خیبر کی وادی تیراہ میں مشترکہ طور پر پینے کے صاف پانی کے منصوبے مکمل کر دیئے ہیں۔ ان تمام سماجی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ قبائلی اضلاع کو سرحد پار دہشت گردی سے محفوظ بنانے کے لئے پاک فوج نے افغان سرحد پر باڑ لگانے کا 90 فیصد کام مکمل کر لیا ہے۔ پاک فوج کی کاوش سے2018 میں قبائلی اضلاع میں تاریخ کے پہلے انتخابات نئی تاریخ رقم کرگئے۔ دہشت گردوں نے یہاں کا سکون جس طرح غارت کر رکھا تھا، وہ یہاں کے باسیوں کے لئے بالخصوص اور پورے ملک کے لئے بالعموم کسی بڑی آزمائش سے کم نہ تھا۔ بھلا ہو فوج اور جاں نثار سپوتوں کا کہ جن کی قربانیوں سے خوف و دہشت کی علامت بننے والی سرزمین امن کا گہوارہ بن گئی ہے۔
قبائلی اضلاع کے عوام ایک عرصے تک دہشت گرد گروہوں کے رحم و کرم پر تھے جس کی وجہ سے قبائلی عوام کو نہ صرف شدید جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ در در کی ٹھوکریں بھی کھانی پڑیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے سات قبائلی اضلاع سابقہ فاٹا کا حصہ تھے۔ جن کا انتظام وفاق کے سپرد تھا۔ یہاں انگریز دور کے قانون "ایف سی آر " اور "جرگہ سسٹم" کے ذریعے نظام چلایا جا رہا تھا۔ سابق فاٹا سات ایجنسیوں خیبر، مہمند، باجوڑ، کرم، اورکزئی، جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان میں تقسیم تھا۔ اس کے علاوہ چھ نیم قبائلی علاقے ایف آرز بھی فاٹا کا حصہ تھے، جن میں ایف آر پشاور، ایف آر کوہاٹ، ایف آر بنوں، ایف آر لکی مروت، ایف آر ٹانک اور ایف آر ڈیرہ اسماعیل خان شامل تھے۔
حال ہی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے قوم کو قبائلی اضلاع میں امن کی خوشخبری سناتے ہوئے نصیحت بھی کہ ہمیں دشمن کی سازشوں سے چوکنا رہنا ہوگا، پاکستان خطے میں امن و استحکام کے لیے کوشاں ہے، چوکنا رہتے ہوئے دشمن کی سازشیں ناکام بنانی ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے دورے کے موقع پر سپہ سالار نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں امن لوٹ آیا ہے، امن و استحکام کو مزید تقویت دے رہے ہیں، آپریشن ردالفساد کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
پاک فوج نے جس طرح ہزاروں سپوتوں کی قربانی دے کر سول انتظامیہ کی مدد سے قبائلی اضلاع میں امن قائم کیا ہے، وہ پوری دنیا کے لئے ایک مثال ہے، مجھے ایمان کامل ہے کہ اب یہاں کی زریش اور اس کی ماما کے خواب پورے ہونے کا وقت آگیا ہے۔