گئی جمعرات کے روز لاہور کے مصروف کاروباری علاقے انارکلی کے قریب بم دھماکے سے یہ اندیشہ تقویت اختیار کرتا ہے کہ ملک کے شہری علاقے جو پچھلے کچھ عرصے سے دہشت گردی کے خطرے سے محفوظ قرار پاچکے تھے، اب عدم تحفظ کے خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ ایک انتہا ئی الارمنگ صو رتِ حا ل ہے۔ یہ واقعہ جس میں کم از کم تین شہری جاں بحق او رپچیس سے زائد زخمی ہوگئے، حالیہ دنوں دہشت گردی کا کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں لگتا۔ پچھلے کچھ دنوں سے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ایسے واقعات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ پیر اور منگل کی درمیانی شب اسلام آباد میں ناکے پر کھڑے پولیس اہلکاروں کو دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے شہید کیا۔ اس دوران قبائلی اضلاع اور خیرپختونخوا کے بعض دیگر علاقوں سے اِکا دُکا واقعات کی خبریں آتی رہیں۔ ان واقعات کو اگر سلسلہ وار دیکھا جائے تو یہ سبھی ایک سلسلے کی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم لاہور کے اس سانحہ نے ہما رے کر دا ر کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ مری کے ہوٹل والوں کو کیا روئیں کہ لاہور کے بم بلاسٹ کے بعد عام شہریوں نے دھماکے کے متاثرین کی مد د کر نے کے بجا ئے لو ٹ ما ر شر وع کر دی۔ دھماکے سے مخدوش ہو جانے والی ایک پرائز بانڈ کی دکان سے لا کھو ں روپے کے پر ائز با نڈ اڑا لیے اور چلتے بنے۔ہو نا تو یہ چا ہیے تھا کہ دھماکے کے بعد متاثرہ علاقہ فوری طور پر خالی کر دیا جا تا یا کرا لیا جاتا۔ ایسا کر نا اس لیے ضروری ہو تا ہے کیو نکہ دہشت گردو ں کی خو اہش ہو تی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مزید لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیں۔ اور یو ں وہ زیادہ سے زیادہ دہشت پھیلانے کے مذموم مقصد میں کامیاب ہو سکیں۔ خدا پاک کا شکر ہے کہ انار کلی بازار میں اس وقت کوئی دوسرا دھماکہ نہیں ہوا۔ ورنہ نا جانے ہلاکتوں کی تعداد کہاں تک پہنچ جاتی۔ یہ بات اس لیے کہنا پڑ رہی ہے کیوں کہ ہمارے شہری وہاں زیادہ سے زیادہ تعداد میں مالِ غنیمت سمیٹنے کی غرض سے اکھٹا ہو رہے تھے۔ بہر حال اب صورتِ حال یہ ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید اسلام آباد میں دہشت گردی کے اس واقعے کے بعد ایسے مزید واقعات سے خبردار کرچکے ہیں۔ محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے الرٹ کر درست ثابت کرتا ہے؛ تاہم اس کے ساتھ کئی سوال بھی پید اہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ دہشت گردی کے متعدد واقعات کو بروقت ناکام بنا کر قومی سلامتی اور عوام کے جان و مال کی حفاظت کی گئی، مگر پچھلے کچھ عرصے سے ایسے واقعات کی خبریں نہ ہونے کے برابر ہیں حالانکہ دہشت گردی کے خطرات میں واقعتاً کمی نہیں آئی۔ ملک میں سکیورٹی صورتحال پر نظر رکھنے والے ایک غیرسرکاری ادارے کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ملک میں دہشت
گردی کے 207 واقعات ہوئے جو ایک برس پہلے کے مقابلہ میں 42 فیصد زیادہ تھے۔ گزشتہ برس دہشت گردانہ حملوں میں لقمۂ اجل بننے والے افراد کی تعداد بھی ایک برس کے مقابلے میں 52 زیادہ تھی۔ دہشت گردی کے واقعات کا تقابلی جائزہ لینے سے یہ ماننا مشکل ہوجاتا ہے کہ دہشت گردی کے خطرات میں کمی آرہی ہے۔ کم از کم گزشتہ برس سے تو اس میں اضافے کا رجحان ملتا ہے۔ قومی سلامتی کے ذمہ داران کے لیے ان حالات میں چوکنا رہنا اشد ضروری ہے۔ یہ ضرورت اب قومی سلامتی کا ایک لازمی تقاضا نظر آتی ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ ملک دشمنوں کے خلاف جس دم خم کے ساتھ پچھلے کئی برس سے کارروائیاں جاری ہیں، کارکردگی کے اس معیار کو نیچے نہ آنے دیا جائے۔ یہ کام بہترین انداز میں کس طرح انجام دیا جاسکتا ہے یا وقت کے ساتھ سکیورٹی حکمت عملی میں کیا تبدیلیاں ضروری ہیں، سکیورٹی ادارے اپنی ان پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے کی دھمکی بلاشبہ سکیورٹی کے نئے چیلنجز کا سبب ہے۔ اگرچہ اس دہشت گرد گروہ کی جنگ بندی بھی یقینی نہیں تھی اور اس دوران بھی اس سے جڑے عناصر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہے؛ تاہم جنگ بندی کے خاتمے کا رسمی اعلان سنجیدگی کا متقاضی ہے۔ حالیہ دنوں دہشت گردی کے سلسلہ وار واقعات نے یہ ثابت کیا ہے۔ چنانچہ فی الفور سکیورٹی اور انٹیلی جنس کے نظام کو بہتر بنانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز لاہور میں ہونے والے دھماکے سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ دہشت گردی کا خطرہ اب ملک کے بڑے شہروں میں پہلے سے زیادہ ہے۔ دو تین روز پہلے اعلیٰ سطح پر جن خدشات کا اظہار کیا گیا وہ ہوبہو پورے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان خطرات کو معمولی لینے کی کوئی وجہ نہیں۔ لاہور میں دہشت گردی کا واقعہ سیکورٹی حکام کے لیے ایک چیلنج ہے۔ بڑے شہروں میں سکیورٹی کو فی الفور بڑھا کر اور خفیہ نیٹ ورک کو مضبوط کرکے دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے نمٹا جاسکتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اداروں نے اپنی طویل جدوجہد کے دوران بہت کچھ سیکھا ہے، جبکہ دہشت گردوں کے خلاف جاری جدوجہد نے ملک دشمن عناصر کو ہر لحاظ سے کمزور کیا ہے۔ اس لیے یہ اعتماد موجود ہے کہ دہشت گرد اگرچہ اب بھی اِکا دُکا واقعات کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر ریاست کی صلاحیت اور کپیسٹی بتدریج بہتر ہوئی ہے۔ ماضی کے مقابلے میں سکیورٹی اداروں کے پاس اب زیادہ تجربہ، آپریشنل صلاحیت اور نگرانی کے بہتر وسائل موجود ہیں۔ سیف سٹیز کا نظام اس حوالے سے قابل ذکر ہے جس کی مدد سے گزشتہ برسوں میں دہشت گردی کے کچھ بڑے کیسز کو ٹریس کرنے میں مدد ملی۔ شہر میں سکیورٹی کیمروں کی موجودگی شہری تحفظ کا ایک بڑا ذریعہ ہے؛ چنانچہ ان حالات میں اس نظام کو بھی ایک دفعہ پھر دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ پچھلے کچھ عرصے میں لاہور سیف سٹی کے کیمروں کی خرابی کی کئی خبریں آ چکی ہیں۔ اگر یہ نظام اب بھی بہتر اور پوری صلاحیت کے مطابق چالو نہیں تو یہ ایک بڑی کوتاہی ہے۔ گو یا ہما رے ادا روں کی حا لت اس بند ر کی سی ہے جو سرد تر ین را ت در خت پر گز ا رتے وقت خو د سے وعد ہ کر تا ہے کہ صبح اٹھ کر پہلا کا م ٖگھر بنا نے سے شرو ع کروں گا ۔ مگر اگلے روز دھو پ چڑھتے ہی سوچتا ہے کہ جب را ت آئے گی تو دیکھا جا ئے گا۔ ہمارے ادا روں نے اربو ںروپے خرچ کرکے سسٹم لگالیا مگر چند لاکھ روپے اس کی بحالی اور بہتری پر خرچ نہ کرنا ، یہ سوچ کر کہ جب دہشت گر دی ہو گی تو دیکھا جا ئے گا، باعثِ تعجب ہے۔ تخریب کاری کے واقعات محفوظ پاکستان کے تشخص کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ ماضی قریب میں دہشت گردوں کو جرأت سے شکست دے کر ملک میں امن و امان قائم قائم کیا گیا اور شہروں میں کھویا ہوا احساسِ تحفظ لوٹ آیا۔ اب تازہ واقعات اور دہشت گردوں کی گیدڑ بھبکیاں شہریوں کے لیے نئی تشویش کا سبب بن رہی ہیں۔ سکیورٹی کے ان خطرات کے معاشی اثرات بھی ہوں گے، اس لیے قومی سلامتی کے تحفظ میں کسی قسم کی فروگزاشت کی گنجائش نہیں۔