2021 کے اختتام پر عوام بہت خوش دکھائی دے رہے تھے، عوام سوچ رہے تھے کہ 2022 کے شروع میں شاید حالات بہتر ہو جائیں گے کیونکہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے تو عوام میں ایک خوف کم ہو رہا ہے وہ خوف کرونا کا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ کرونا ختم ہی تو ہو رہا ہے۔ ایسے میں عوام کی یہ دعا تھی کہ یہ سال تو جیسے تیسے ختم ہوا ہے نیا سال خوشیوں بھرا ہو۔ کیونکہ عوام امید لگائے بیٹھے تھے، حکومت سے شاید اب حالات بہتر ہو جائیں مگر جیسے ہی سال 2021 کا اختتام ہوا اور 2022 کا آغاز ہوا حکومت کی جانب سے عوام کو ایک تحفہ دیا گیا اور وہ تحفہ یہ تھا کہ 2022 کے آمد کے ساتھ ہی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔ اس پر عوام مزید پریشان ہو گئے، جب عام شہریوں سے اس بارے میں بات کی گئی کہ موجودہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے، آپ کیا کہیں گے؟ تو ایک صاحب بولے کہ بڑا مختصر جواب دوں گا، نہ چھیڑو ہمیں ہم ستائے ہوئے ہیں۔ عوام کہتے ہیں کہ حکومت نے قیمتیں بڑھانے کے علاوہ عوام کو دیا ہی کیا ہے؟ اگر اس بات پر غور کیا جائے
تو بات تو ہے سچ بات ہے رسوائی کی
اگر اپنی تحقیق کا دائرہ وسیع کریں تو معلوم ہوتا ہے دنیا میں سستا پٹرول کس ملک میں ہے اور پاکستانی روپے میں فی لیٹر اس کی قیمت کیا ہے تو یہ چیز حکومت کے دعووں کی قلعی کھول دیتی ہے۔ جب ہم اس پر ریسرچ کرتے ہیں سب سے سستا پٹرول وینزویلا میں ہے جہاں پاکستانی روپے میں ایک لیٹر کی قیمت صرف 5روپے ہے۔ اس کے بعد ایران کا نمبر آتا ہے جہاں ایک لیٹر پٹرول پاکستانی 9روپے میں دستیاب ہے جب کہ دبئی میں 121 روپے اور بنگلہ دیش میں 183 روپے ہے۔ بھارت کی کرنسی کی قدر زیادہ ہونے کی وجہ سے وہاں ایک لیٹر پٹرول 246 روپے کا ہے۔ اس کے علاوہ ہانگ کانگ میں بھی فی لیٹر قیمت 462 روپے ہے۔ حکومت دوسرے ممالک سے اپنے ملک کا موازنہ تو کرتی ہے مگر وہ شاید یہ بھول جاتی ہے کہ جن ملکوں سے ہم اپنے ملک کا موازنہ کر رہے ہیں وہ اپنے عوام کو سہولیات میسر کرنے میں بہت آگے ہیں اور ان کے شہریوں کی تنخواہیں ہماری نسبت کئی گنا زیادہ ہیں۔ اور یہ بات حقیقت ہے کہ اگر ہم ان ترقی یافتہ ملکوں کو دیکھیں تو وہاں کے عوام اپنی تنخواہوں سے بہت خوش دکھائی دیتے ہیں۔
نئے سال کے آغاز پر ہی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔ وزارت خزانہ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس بات سے عوام میں کس حد تک غصہ بڑھ جائے گا۔
میں یہ پوچھتی ہوں حکومت سے کہ جناب آپ کو فرق تو نہیں پڑتا مگر آپ نے یہ سوچا ہے کہ ایک عام بندے کو کتنا فرق پڑے گا۔ حکومت بڑے آرام سے کہہ دیتی ہے کہ تین چار روپیہ میں بڑھایا گیا ہے پٹرول، تو جناب وزیراعظم یہ تین چار روپے ایک غریب آدمی کے لیے کتنے اہمیت کے حامل ہیں، آپ جانتے ہیں۔ آپ بالکل نہیں جانتے کیونکہ آپ ایک غریب آدمی کی زندگی سے بالکل لا علم دکھائی دیتے ہیں۔
یقین جانئے جناب وزیراعظم صاحب اس وقت عوام کی بہت بُری حالت ہے۔ عوام اس وقت کو رو رہے ہیں کہ جب اس نے اپنے قیمتی ووٹ کا استعمال کر کے آپ کو ملک کا وزیراعظم منتخب کیا۔ عوام سمجھتے تھے کہ شاید آپ عوام کی مدد کر سکیں۔ مگر عوام یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا حال ماضی کے ادوار سے بہت بُرا ہونے والا ہے۔ ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے میں سمجھتی ہوں کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بہت بُری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ کیونکہ عوام کہتے ہیں کہ ہم ملک کا سربراہ کیسا چاہتے تھے جو اپنی عوام کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کرے نہ کہ ملک کی کمانڈ سنبھالتے ہی عوام کا مہنگائی سے جینا محال کر دے۔ کبھی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کر کے تو کبھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر کیوں کہ پٹرول کی قیمت بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے۔
اب تو عوام یہ بات کہتے ہیں کہ جب یہ ملک سنبھال نہیں سکتے تھے تو سبز باغ کیوں دکھاتے تھے۔ ایک حد تک بات بھی سچ ہے۔ آخر میں یہی کہوں گی کہ وزیراعظم صاحب اگر سنبھال نہیں سکتے حالات تو خاموشی سے سائیڈ پر ہو جائیں نہ کہ اب ماضی کی حکومتوں پر ڈال کر اپنے آپ کو محفوظ کریں۔۔۔۔
کرسی ہے تمہارا جنازہ تو نہیں
کچھ کر نہیں سکتے تو اُتر کیوں نہیں جاتے