اکثریت کی طرح مجھے بھی سردیوں کا موسم اور دھوپ میں بیٹھنا بہت پسند ہے بلکہ بچپن سے ہی میں سردیوں کا انتظار دو وجوہات کی بنا پر کیا کرتا تھا۔ ایک ٹھنڈ میں دھوپ کی تمازت اور دوسراکبھی بارش ہو جائے تو پورے کا پورا دن لحاف میں گھس بیٹھ کر کچھ پڑھتا رہوں۔ اس لئے ہم خود ذاتی طور پر عمر بھر سردی کے موسم کے شیدائی رہے ہیں اور گرمیوں میں اس کا انتظار کرنے کے عادی ہیں۔ والد صاحب آرمی پرسن تھے اس لئے ہم جہاں ان کی پوسٹنگ ہوتی وہیں ان کے ساتھ شفٹ ہو جاتے۔ تب فوجی گھروں میں بڑے بڑے لان اور صحن ہوا کرتے تھے جہاں میں بچپن میں دھوپ میں بیٹھ کر بہت لطف اندوز ہوتا تھا۔ تب دھوپ بھی بہت ہوا کرتی تھی ، آج کل چہار سو چھائی رہنے والی دھند میںتو دھوپ شاذ و نادر دیکھنے کو ملتی تھی۔ دھوپ قدرت کا کتنا بڑا تحفہ ہے، اس کا اندازہ فیصل آباد اور ملک کے دیگر علاقوں میں رہنے والے ان پاکستانیوں کو بخوبی ہو گا جنہوں نے اس سال ساری سردیاں سورج کو سموگ اور فوگ کی اوٹ میں ہی دیکھا ہے۔ دھوپ اور ہوا جیسی نعمتیں ہم بہت ضائع کر رہے ہیں۔ وطنِ عزیز کو اس وقت جن بڑے بحرانوں کا سامنا ہے توانائی کا بحران ان میں سرِ فہرست ہے۔ کم اور پھر مہنگی بجلی نے عوام کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں جب کہ ملکی صنعتیں بھی اس سے بری طرح متاثر ہیں۔ پاکستان اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے زیادہ تر تیل پر انحصار کرتا ہے جب کہ گزشتہ چند برس سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف بجلی مسلسل مہنگی ہوتی جا رہی ہے وہاں دوسری طرف اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لئے توانئی کے متبادل ذرائع تلاش کرنا نا گزیر ہو گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو بے پناہ قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم نے اپنی کوتاہی کی وجہ سے ان وسائل سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کرنے کی جانب سنجیدگی کے ساتھ کوئی توجہ نہیں دی۔ پاکستان میں تیل کی موجودگی کے شواہد کے بارے میں بھی اکثر ذکر کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہ تیل عالمی اجارہ دار کمپنیاں نہیں چاہتیں کہ یہ دولت زمین سے باہر آئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس معاملے میں کچھ پیش رفت کی۔ شاہ ایران کی بھٹو دشمنی اس سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ خوش قسمتی سے
پاکستان جغرافیائی اعتبار سے ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں سارا سال سورج اپنی آب و تاب سے چمکتا رہتا ہے۔ جس کے باعث یہ توانائی نہایت آسانی کے ساتھ اور بلا تعطل وافر مقدار میں ہر وقت دستیاب ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری حکومتوں نے توانائی کے اس اہم ذریعے کی جانب کوئی توجہ نہ دی۔ ا ور اب کچھ کام ہو رہا ہے لیکن اس کی رفتار انتہائی سست روی کی شکار ہے۔
دھوپ سے بجلی کے بحران پر قابو پانے کا معاملہ تو خیر غور طلب ہے مگر یہ نعمت ان غریب لوگوں کے لئے یقینا انتہائی اہم جو گرم کپڑوں سے محرومی کا مقابلہ اس نعمتِ خدا داد یا پھر بیرون ملک سے آئے ہوئے استعمال شدہ کپڑوں سے کرتے ہیں۔ دھوپ کی قدر جاننی ہو تو یورپ والوں سے پوچھئے جو زندگی کی آسائشوں سے مالا مال ہونے کے باوجود سردیوں کے موسم میں اس کے لئے ترستے ہیں بلکہ میں تو یہ کہوں گا کچھ برسوں سے سردیوں کا سورج بھی ہمارے لئے کسی کھٹور محبوبہ سے کم نہیں جب دل کرتا ہے تو دھند کی اوٹ سے نکل آتا ہے ورنہ دھند اور بادلوں کی اوٹ سے ترساتا رہتا ہے۔ سرما کی دھوپ کو شعراء حضرات محبوب سے تشبیہ دیتے رہے ہیں۔ حسرت موہانی کا شعر ہے
جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے
زخموں کو اب گنوں کا
میں بستر پہ لیٹ کے
محسن نقوی کا شعر ہے
شہر کی دھوپ سے
پوچھیں کبھی گاؤں والے
کیا ہوئے لوگ وہ
زلفوں کی گھٹاؤں والے
عمر بھر ہم سرما کے موسم کے کی آمد کے منتظر رہے۔ لیکن جب سے سردیوں میں دھند نے ڈیرے ڈالے ہیں اور سردی کی شدت میں بہت اضافہ ہو گیا ہے ہم سردیاں ختم ہونے کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ ائر کوالٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ سموگ سے پاکستان کے عوام بہت متاثر ہو رہے ہیں ، سموگ پاکستانی عوام کی اوسط عمر کم کر رہی ہے۔ جب بھی درجہ حرارت کم ہوتا ہے شام سے صبح تک سموگ کی شدت بڑھتی جاتی ہے جو صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔ جو آنکھوں اور پھیپھڑوں کو بہت نقصان پہنچاتی ہے۔ ماہرین نے سموگ سے پاکستانیوں کی اوسط عمر میں کافی زیادہ کمی واقع ہو نے کا خدشہ ظاہر کیا ہے، جب کہ فوگ چیسٹ کے امراض میں مبتلا افراد کے لئے بڑی ضرر رساں ہے۔ خاص طور پر استھمیٹک افراد کے مسائل اس موسم میں مزید بڑھ جاتے ہیں۔ پڑھ کر حیرانگی ہو گی کہ مجھے فیصل آباد میں چترال سے آئے ہوئے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا جب میں نے پوچھا کہ چترال میں بہت ٹھنڈ ہوتی ہے وہ کہنے لگے ٹھنڈ ہے لیکن پنجاب کی طرح کی نہیں، یہاں دھوپ بالکل ہی دیکھنے کو نہیں ملی جب سے ہم لوگ آئے ہیں جب کہ چترال میں بارش بھی ہوتی ہے اور دھوپ بھی وافر میسر ہوتی ہے۔جب کہ یہاں یہ صورتحال ہے کہ دسمبر، جنوری میں ہم سورج کی شکل دیکھنے کو ترستے رہے، جن غریب خاندان کے بچوں، بیماروں اور بوڑھے افراد کے پاس مناسب کپڑے تک نہیں ہیں اور ایسے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان پر اس خوفناک سرد موسم میں کیا گزرتی ہو گی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ یہ خیال بھی آتا ہے کہ شائد قدرت کی طرف سے ہمیں دھوپ جیسی نعمت سے کام نہ لینے کی سزا مل رہی ہے۔ اس لئے ہم ایک دفعہ پھر مقتدر حلقوں سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ دھوپ اور ہوا کے ان خزانوں کو ضائع نہ کریں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارے ملک میں کثرت سے موجود ہیں۔ دنیا کے جو ملک سال کے نصف سے زائد حصے میں دھوپ سے محروم رہتے ہیں وہ تو اس سے توانائی پیدا کر رہے ہیں مگر ہمارے ملک جس کی جھولی اس نعمت سے بھری پڑی ہے اسے ضائع کر رہے ہیں۔ روس میں شمسی توانائی سے وافر بجلی پیدا کی جا رہی ہے حالانکہ وہاں یہ نعمت بہت کم مقدار میں میسر ہے۔ اس سلسلے میں بنگلا دیش کی مثال بھی ہمارے لئے ایک مشعلِ راہ ہے جہاں بڑی تعداد میں سولر پینل انسٹال کئے جا چکے ہیں اور اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بنگلا دیش کو اس سے دوہرا فائدہ حاصل ہوا ہے کیونکہ ایک جانب دیہاتوں کو کو نیشنل گرڈ کے ساتھ جوڑنے کی میں کئی ملین ڈالرز کی بچت ہوئی ہے جبکہ دوسری جانب مقامی آبادی کو روزگار کے ہزاروں مواقع میسر آئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شمسی توانائی کے شعبے میں جنگی بنیادوں پر کام کیا جائیگا۔ شمسی توانائی کا حصول نہ صرف قومی سطح پر بآسانی کیا جا سکتا ہے بلکہ اسے انفرادی سطح پر انجام دینے میں بھی کوئی زیادہ قباحت نہیں ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ سولر انرجی کا خرچہ صرف ایک بار ہو گا جس کے نتیجے میں بجلی کے بار بار آنے والے بھاری بھاری بلوں سے آپ کی جان چھوٹ جائے گی۔