سیاسی حکومت اور سول انتظامیہ،عملی طور پر ایک ہی ادارہ کے دو جز ہیں اور باہم منسلک ہیں مگر قیام پاکستان کے فوری بعد سے ہی دونوں میں چپقلش کی فضا رہی ہے،جس کے نتیجے میں حکومتی کار کردگی متاثر ہوتی ہے اور بھگتنا عوام کو پڑتا ہے،سیاسی حکومت اور سول انتظامیہ دونوں اس بری کارکردگی پر خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ،دونوں ہی اس کے ذمہ دار ہوتے ہیںلیکن جب بھی جائزہ لیا جاتا ہے تو سارا گند اٹھا کر انتظامیہ پر ڈال دیا جاتا ہے،اسی ناخوشگوار صورتحال کی وجہ سے بیوروکریسی اور انتظامیہ میں ہمیشہ بد دلی کی سی کیفیت رہی،آئین کے تحت وزیر اپنے ماتحت محکمہ کی اچھی یا بری کارکردگی کا ذمہ دار ہوتا ہے،سیکرٹری کا کام اس کے احکامات پر عملدرآمد ہے ،اگرچہ آئین کے تحت سیکرٹری کسی بھی وزیر کے زبانی حکم پر عملدرآمد کا پابند نہیں ،عملدرآمد سے قبل اسے تحریری طور پر اس حکم کو منظوری کیلئے پیش کرنا ضروری ہے ،منظوری کے بعدسیکرٹری عمل درآمد کا پابند ہے،آئین کے تحت سیکرٹری دئیے گئے تحریری یا زبانی حکم کو آئین اور قواعد و ضوابط کی رو سے پرکھنے کا پابند ہے،اگر کوئی حکم ضوابط کیخلاف ہو تو سیکرٹری اس پر عملدرآمد کا پابند نہیںبلکہ وزیر موصوف کو آگاہ کرتا ہے کہ قوانین کے مطابق اس حکم پر عملدرآمد نہیں ہو سکتا،مگر ہمارے ہاں کوئی بھی حکومت ہو کیسا بھی سسٹم ہو وزیر خود کو خلائی مخلوق اور قاعدے ضابطے کا پابند تصور نہیں کرتے اور حکم کی سرتابی کرنے والے سیکرٹری کو قابل گردن زدنی گردانتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ملک کی بیوروکریسی جو اعلی تعلیم یافتہ ہونے کیساتھ ساتھ تربیت یافتہ بھی ہوتی ہے۔ وزراء کی بی ٹیم کے طور پر ہی کام کرتی ہے،جس کے نتیجے میں بیوروکریسی کی تعلیم تربیت تجربہ اہلیت اور قابلیت سے استفادہ نہیں کیا جا سکا۔
قیام پاکستان کے بعد سے ہر دور حکومت پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے ہر کامیاب حکمران کے پیچھے بیوروکریسی کا ہاتھ ہوتا ہے،آزادی کے فوری بعد سے ایوبی دور کے خاتمے تک ملک میں سیاسی انارکی رہی جس کے باعث ریاستی امور کی انجام دہی بیورو کریسی کے ہاتھ میں رہی،آزادی کے بعد بد ترین حالات میں بیوروکریسی نے نہ صرف ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا،بلکہ صنعت و زراعت کے شعبوں میں بھی انقلاب برپا کیا،انفراسٹرکچر کیساتھ ڈیم تعمیر ہوئے،دیگر ممالک سے تعلقات کو بہترین ڈگر پر چلایا گیااور پاکستان کو عالمی سطح پر اہمیت ملی،امریکہ و روس بھی جو اس وقت دو عالمی طاقتیں تھیں پاکستان سے تعلقات کی کوششوں میں لگے رہے،پاکستان نے امریکہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو روس بھارت کی گود میں جانے پر مجبور ہو گیا،یہ سب بیوروکریسی کی محنت کا نتیجہ تھا کہ پاکستان عالمی سیاست میں اہم ترین ملک بن گیا،مگر وقت کیساتھ حکمرانوں نے عالمی برادری سے تعلقات کی نوعیت ہی کو تبدیل کر دیا اور پاکستان چین کی طرح امن و سلامتی سے ترقی و خوشحالی کی راہ پر چلنے کے بجائے پراکسی وارز کا حصہ بن گیا جس کا خمیازہ ملک و قوم آج تک بھگت رہے ہیں۔
کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ آ ج کی بیوروکریسی کا ذہنی اور اخلاقی اہلیت کا میعار وہ نہیں جو ماضی کے بیوروکریٹس کا تھا،تسلیم کہ بیوروکریسی کا معیار گراوٹ کا شکار ہے مگر اس کے ذمہ دار بھی حکمران ہیں،بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت،حکومتی دبائو،میرٹ کے خلاف
من پسند تعیناتیاں بیوروکریسی کی کار کردگی پر اثر انداز ہوئی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگرآج وہ بیوروکریٹ دستیاب نہیں جو ماضی میں تھے تو سچ یہ ہے کہ آج ایسے سیاستدان اور حکمران بھی نہیں جو ماضی میں تھے،یہ بات اب کوئی خفیہ راز نہیں کہ دنیا بھر میں قحط الرجال ہے،ایک تبدیلی جو ماضی حال میں نمایاں فرق ہے اور یکساں طور پر قوم کے ہر طبقہ میں عام ہے اور یہ قومی المیہ سے کم بھی نہیں کہ ملکی اورقومی مفاد پر ذاتی مفاد حاوی ہو چکا ہے اور یہ عیب بھی سیاسی حکومتوں کی وجہ سے رواج پایا،اس بات سے انکار نہیں کہ حکومت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے اپنے شعبے میں حرف آخر ہیں اگرچہ ان کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے،کچھ وزراء کی کار کردگی بھی قابل تعریف ہے بیوروکریسی میں بھی ایسے جوہر موجود ہیں جن کو بہترین قرار دیا جا سکتا ہے،مگر ان کو بروئے کار لانے کی سنجیدہ سعی نہیں کی جا رہی،اگر حکومت بیوروکریٹس کی سالانہ خفیہ رپورٹس کی مدد سے اپنی غرض کے افسر تلاش کرے تو ایک بہترین ٹیم تشکیل دی جا سکتی ہے جو ڈیلیور کر سکے،حکومتی اقدامات کے ثمرات نچلی سطح پر عوام میں منتقل کر سکے،عوام کو ریلیف دے سکے،مگر کیا کیا جائے کہ سالانہ خفیہ رپورٹس کو مرتب کرنے کا طریق کار بھی مشکوک ہو چکا ہے۔
ہمارے ہاں مرکز اور صوبوں میں سیکرٹری کا عہدہ کسی بھی طرح غیر اہم نہیں مگر اس کو سیاسی اور فوجی حکومتیں اہمیت نہیں دیتیں، مرکز میں وزیر صوبوں سے زیادہ با اختیار ہوتا ہے مگر ہمارے وزرا ء کی اکثریت وزارت اور محکموں کے بائی لازسے واقفیت رکھتی ، نہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہے اس لئے وہ سیکرٹری صاحبان کے محتاج ہوتے ہیں،مگر دوسری طرف وزراء سیکرٹری حضرات کو اپنا ماتحتوں جیسا سلوک روا رکھتے ہیں جس سے بددلی پھیلتی ہے،اہم ترین یہ کہ سیاسی حکمران ان پر کھلے دل سے اعتبار بھی نہیں کرتے اور وزراء کی کرنیاں بھی سیکرٹری صاحبان کو بھگتنا پڑتی ہیں ایسے میں اعتماد کا ماحول قائم ہو سکتا نہ کوئی کھل کر کام کرسکتا ہے اور معاملات میں خرابی در خرابی در آتی ہے،اس صورتحال کا ادراک ہر حکمران کو ہوتا ہے اور ہر حکمران جانتا ہے کہ بیوروکریسی اور ان کے فرائض منصبی میں مداخلت سے خرابیاں جنم لے رہی ہیں مگر اس روش سے اجتناب کرنے کے بجائے اسے جاری رکھا جاتا ہے،جس کے نتیجے میں ہر کوئی اپنی کھال بچانے کے چکر میں کسی بات کی ذمہ داری اپنے سر اٹھانے کو تیار نہیں ہوتا،ہر کوئی دودسرے پر ذمہ داری عائد کر کے خود کو الگ رکھنے کی کوشش کرتا ہے ایسے میں کون کار کردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے اور کیونکر اپنی پوری استعداد اور اہلیت کو بروئے کار لا کر ڈیلیور کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کا سوچ سکتا ہے۔
حکومت کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ انتظامیہ اس کا حصہ ہے،اسے معاملات سے الگ کر کے نتائج حاصل نہیں کئے جاسکتے،یہ کہنا کہ اب وہ بیوروکریسی نہیں جو ماضی میں دستیاب تھی تو اب وہ سیاستدان بھی نہیں جو ماضی میں تھے،صرف پاکستان میں نہیں پوری دنیا میں یہی ہو رہا ہے ،ترقی یافتہ ممالک میں بھی اب اس درجے کے سیاستدان اور سرکاری مشینری نہیں ملتی،مگر ان کی خوبی قوانین پر سختی سے عملدرآمد اور ملکی و قومی مفادات کا تحفظ ہے آج اگر ہم بھی یہ عزم کر لیں کہ قوانین کے منافی کوئی اقدام نہ کریں گے اور ہر حال میں ملکی اور قومی مفادات کو مقدم رکھیں گے تو نظام بھی درست ہوتا جائے گا اور کار کردگی بھی بہتر ہو جائے گی۔