پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط نہ ہو سکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ نے اپنے مفادات کی خاطر مقامی حکومتوں کے نظام سے پس و پیش سے کام لیا ہے۔ مقامی حکومت کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بعد 3rd Tier of Govt کہا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں یہ بات صرف کاغذی حد تک تسلیم شدہ ہے ۔ حقیقت میں اس کا وجود ناپید ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں اس بات پر تو بہت محتاط اور باخبر ہیں کہ وفاق سے اپنے صوبائی اختیارات حاصل کرنے میں کوئی کسر نہ رہ جائے مگر جب صوبوں کو یہ اختیارات ضلعی سطح پر مقامی حکومت کو منتقل کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو بقول علامہ اقبال:
عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک میرا
تو ایسے موقع پر سیاسی اشرافیہ ہر طرح کی فتنہ گری، سرکشی اور چالا کی سے پوری کوشش کرتی ہیں کہ کسی نہ کسی بہانے مقامی اختیارات خود استعمال کئے جائیں یہ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
سیاسی جما عتوں کے اندر مقامی حکومت یا لوکل باڈیز کیلئے برداشت کا لیول چیک کرنا ہو تو سب سے پہلے برسراقتدار پی ٹی آئی حکومت کا ذکر آتا ہے جس نے اقتدار میںآتے ہی سب سے پہلے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ منتخب مقامی ضلعی نظام کو معطل کر دیا اور فنڈز اپنی تحویل میں لے لئے گئے ایک غلط اور غیر آئینی اقدام کی تنسیخ اور انصاف کیلئے تین سال سے زائد عرصے کی عدالتی جنگ کے بعد وہ ادارے بحا ل ہوئے اور ساتھ ہی ان کی مدت پوری ہوگئی جس کے بعد ملک کے سب سے بڑے انصاف کے ادارے سپریم کورٹ آف پاکستان کو یہ حکم دینا پڑا کہ ملک میں بلدیاتی انتخاب کرا ئے جائیں اور یوں خیبر پختونخوا میں سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی الیکشن ہوئے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے کسی بھی دور حکومت میں بلدیاتی الیکشن اس لئے نہیں کرائے کہ کہیں ان کے مخالفین جیت نہ جائیں۔ مسلم لیگ ن کا گراف قدرے بہتر ہے انہوں نے 1997ء اور 2016ء میں بلدیاتی الیکشن کرا ئے اور اقتدار منتخب نمائندوں کے حوا لے کیا۔ بلدیاتی حکومت کے
فروغ کیلئے سب سے زیادہ کام فوجی حکومتوں کے دور میں ہوا۔ ضیاء الحق کے دور میں 1979ء، 1983ء اور 1987ء میں غیر جماعتی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات ہوئے اسی طرح 2002ء میں مشرف حکومت نے بلدیاتی الیکشن جماعتی بنیاد پر کرائے جس میں انقلابی طور پر خواتین کو 30 فیصد نمائندگی دی گئی ۔
بلدیاتی نظام قومی سیاست کے لیے ایک نرسری کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایک اندازے کے مطابق 70 فیصد سیاستدان بلدیاتی نظام کو بائی پاس کر کے ایک پیرا شوٹ جمپر کی طرح سیاست کے میدان میں اترتے ہیں تو جمہوریت کی نفی ہے۔
ان حالات میں یہ بات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ گلی اور محلے کی سطح پر عوام میں ان کے مسائل سے آگاہی اور ان کے حل کیسے آواز اٹھانے کی اہمیت کا احساس پیدا کیا جائے تا کہ عوام نچلی ترین سطح پر آپس میں مل جل کر اپنے مسائل کے حل کا ادراک کریں اور اسی کیلئے منظم طریقے سے طاقت کے مقامی مر کز سے اپنے لئے ریلیف حاصل کریں ان کو یہ احساس دلایا جائے کہ دوسرا کوئی آپ کی مدد کیلئے نہیں اٹھے گا آپ کواپنے حق کے لیے خود ہی اٹھنا پڑے گا اور اپنے حقوق سے آگاہی اور ان کے حصول کی جدوجہد اختیار کرنا ہوگی۔
معروف غیر سرکاری سماجی تنظیم سنگت ڈیویلپمنٹ فاؤنڈیشن نے جناب زاہد اکرام کی قیادت لوکل باڈیز کی ترویج و ترقی کیلئے پنجاب میں گزشتہ کئی سال میں بے پناہ کام کیا ہے تاکہ اس سوچ کی نچلی ترین سطح پر آبیاری کی جائے کہ آپ کے روزمرہ مسائل کے حل کا سب سے بڑا ذریعہ آپ خود اور آپ کے ارد گرد کے متاثرین ہیں کہ آپ اپنے مسائل کے حل کیلئے جتنے سنجیدہ ہوں ،مقامی حکام اور مقامی سیاسی قیادت اتنا ہی آپ کو اہمیت دے گی۔
سنگت ڈیویلپمنٹ فاؤنڈیشن نے عوام کے ساتھ نچلی ترین سطح پر رابطوں اور سماجی تنظیم سازی میںحال ہی میں ایک جرمن ادارے GIZ کے ساتھ اشتراک عمل سےCitizen Engagement in Sercicedelivery یعنی بنیادی سہولیات کی فراہمی میں شہریوں کی براہ راست شرکت کے نام سے ایک پرا جیکٹ لانچ کیا ہے جو اس وقت پنجاب کے چار اضلاع خانیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ ، منڈی بہاؤ الدین اور شیخوپورہ میں جاری ہے۔
گزشتہ دنوں لاہور کے ایک مقامی مال میں اس پراجیکٹ کے بارے میں کے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیاجس میں صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر اینڈ بیت المال سید یاور عباس بخاری تھے۔ جس میں چاروں اضلاع سے پروگرام سے منسلک شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ حاضرین کو بتا یا گیا کہ ان منتخب اضلاع میں سنگت نے مقامی سطح پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ اشتراک سے عوام کی آگاہی کیلئے Mobilization compaign شروع کررکھی ہے جس میں سابقہ کونسلرز، سماجی شخصیات اور مقامی رضاکار خواتین و حضرات کو شامل کیا گیا ہے ان گروپوں نے اپنے اپنے اضلاع میں مقامی ضلعی حکومتی ڈھانچے میں اپنی ایک پہچان کرائی ہے اور یہاں پر عوامی مسائل کی نشاندہی کیلئے افسران کے ساتھ ’’کھلی کچہری‘‘ کا اہتمام کیا گیا ہے،جس سے مقامی مسائل کو مقامی سطح پر حل کیا جا تا ہے۔ اس سے ان گروپوں کے ارکان میں خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے کہ وہ اپنے مسائل کو متعلقہ سطح پر حل کرنے لگے ہیں۔ اس سلسلے میں سنگت ڈیویلپمنٹ فاؤنڈیشن نے انہیں ایک سوچ ایک فکر اور ایک ڈائریکشن مہیا کی ہے کہ وہ اپنے مسائل کے حل کیلئے اپنا راستہ خود متعین کریں اور اپنے مسائل کے حل کیلئے اکٹھے ہو کر کام کریں تا کہ حقیقی تبدیلی پیدا کی جاسکے سوچ تبدیل کئے بغیر تبدیلی کا تصور بے معنی ہے۔
سنگت ڈیویلپمنٹ فاؤنڈیشن کی کامیابی کیلئے ہماری نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں ہمیں امید ہے کہ وہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات سے پہلے ایسی آگاہی مہم شروع کریں گے جس سے عوام میں یہ اجاگر ہو کہ کسی طرح نئی قیارت جنم لے سکے۔ اس میں ووٹ ڈالنے کی اہمیت کے ساتھ ساتھ یہ شعور پیدا کیا جائے کہ ووٹ برادری ازم کے بجائے میرٹ پر ایسے امیدوار کو دیا جائے جو آپ کیلئے ایمانداری اور محنت سے کام کرنے کا جذ بہ رکھتے ہوں۔