پی ڈی ایم نے وقتی طورپر پنجاب اسمبلی کو ٹوٹنے سے بچا لیا ہے لیکن اِس حوالے سے اُٹھائے گئے اکثر اقدامات ایسے ہیں جنھیں آئینی ماہرین خلافِ آئین تصور کرتے ہیں بالخصوص جاری اجلاس کے دوران گورنر کی طرف سے نیا اجلاس بلا کر وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کو اعتماد کاووٹ لینے کا حکم نامہ جاری کرنا،یہ ایک ایسا حکمنامہ ہے جس کی اِس بناپر تائید وحمایت نہیں کی جاسکتی کہ ایک دن اجلاس طلب کرنے کا حکم جاری کیا جاتا ہے اور ایک دن کا وقفہ رکھ کر اگلے دن ہی اعتماد لینے کا شاہی انداز میں حکم نامہ جاری کر دیا جاتا ہے ایسا تو کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ ممبرانِ اسمبلی کی اپنی مصروفیات ہوتی ہیں کوئی بیرونِ ملک ہوسکتا ہے جواتنے کم وقت میں حاضر ہی نہ ہو سکے اسی لیے گمان ہے کہ یہی بدنیتی ذہن میں رکھ کر اجلاس طلب کیا گیا مگرعجلت میں کئی فاش غلطیاں کی گئیں بڑی احتیاط سے جائزہ لیں توجزوی حدتک اجلاس طلب کرنے کو درست کہہ سکتے ہیں کیونکہ نہ ایسے حکمناموں پر ایک دن میں دو دو اجلاس بھی منعقدہوتے رہے مگر اعتماد کاووٹ لینے جیسی حالیہ جلدبازی کی ماضی میں کوئی نظیرنہیں ملتی جب کہ تحریکِ عدمِ اعتماد بھی پیش کی جا چکی ہوگورنر کے حکم کے مطابق تادم تحریر پنجاب اسمبلی کا اجلاس نہیں ہو ا جس پرحکومتی تیوردیکھتے ہوئے آئین و قانو ن کے ماہرین سیاسی بحران مزید بڑھنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں حالانکہ اِس میں کوئی ابہام نہیں کہ اعتماد کا ووٹ لینے کے معاملے پر سپیکر کی رولنگ ہی اجلاس کی آئینی حیثیت ہے آئین میں 209 اے میں اِس کی مکمل وضاحت ہے شاید اسی وجہ سے وزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ کے احکامات کے باوجود گورنر نے وزیراعلیٰ کو ہٹانے کا حکمنامہ جاری کرنے میں تاخیر کی خیر اب تو ڈی نوٹیفائی کا حکم نامہ بھی جاری کیاجاچکا جو عدالت میں چیلنج کیاجاچکا گورنر کی طرف سے بغیر اسمبلی کارروائی کے وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کی سوچ دراصل ماضی کی بدنام اور غیر جمہوری 58/2بی کوزندہ کرنے کے مترادف ہے اہم پہلو یہ ہے کہ اجلاس کا انعقاد سپیکر کی ذمہ داری ہے اُن کی طرف سے ذمہ داری پوری نہ کرنا وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا جواز تو ہر گز نہیں بن سکتی گورنر کے اقدام کے خلاف سابق وزیراعلیٰ نے عدالت سے رجوع کر لیا ہے جس پر عدالتِ عالیہ کاتشکیل دیاجانے والالارجر بینچ جسٹس فاروق حیدر کی طرف سے معذرت کرنے پر فی الحال تو تحلیل ہوگیاہے لیکن جمعہ کو ہی دوبارہ بینچ تشکیل دیے جانے کا امکان ہے اور اتنا وثوق سے کہا جا سکتا ہے
کہ گورنر کے حکم کو عدالتی تائید ملنا محال ہے۔
اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو حاصل اختیارات کے باوجود وفاق نے گورنر کے ذریعے پنجاب میں جس طرح بے جا مداخلت کی ہے اِس سے کوئی اچھی روایت قائم نہیں ہوئی نیز معاملات عدالت لے جانے سے سیاستدانوں کی ناکامی کاتاثرمزید پختہ ہو گا قبل ازیں عدمِ اعتماد سے لیکر وزیرِ اعظم شہباز شریف کے انتخاب کا عمل عدالتِ عظمیٰ کی مداخلت سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچا اسی طرح پنجاب کے وزیراعلیٰ کا انتخاب بھی عدالتی حکم نامے سے ہی مکمل ہوا جو اِس جانب واضح اشارہ ہے کہ ملکی مسائل تو ایک طرف سیاستدانوں میں اپنے مسائل حل کرنے کی صلاحیت تک نہیں اوروہ چالیں چلتے ہوئے آئین و قانون کی پاسداری کرنا بھول کر اقتدار و مفاد کے لیے قواعدوضوابط، آئین و قانون شکنی اور بے اصولی تک چلے جاتے ہیں ایسا تاثربننا کسی صورت بہتر نہیں۔
رانا ثنا اللہ وزیرِ داخلہ جیسے انتہائی اہم منصب پر فائز ہیں یہ عہدہ ملک میں امن و امان یقینی بنانے کا ذمہ دار ہے مگر پنجاب میں انھوں نے فرائض کی انجام دہی کے بجائے اکثر دھونس کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی ہے جس سے معاملات بگڑتے ہیں وزیراعلیٰ ہاؤس کو سیل کرنے اورپھر پنجاب اسمبلی کو تالا لگانے جیسے بیانات دیکر انھوں نے اپنی عزت میں اضافہ نہیں کیا بلکہ جارحانہ بیانات سے ایسے لگتا ہے پنجاب کوئی صوبہ نہیں بلکہ طاقتوراور کمزور دورشتہ داروں کے درمیان کسی مکان کا جھگڑاہے بے جا بیان بازی اور دھمکیوں کے ذریعے بادی النظرمیں انھوں نے اپنے عہدے کی ذمہ داریوں سے انحراف کیا ہے ایک نجی چینل کے پروگرام نقطہ نظر میں عطاتارڑ سے جب سوال کیا گیا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس کو سیل کرناتھا اُس کا کیا بنا؟توجواب میں کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے انھیں کہناپڑاکہ وہ توایک سیاسی لطیفہ تھا سیاستدانوں نے اگر اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے عدالت کا سہارا لینے کا سلسلہ جاری رکھنا ہے تو یاد رکھیں ایسے اطوار ہی بیرونی قوتوں کو مداخلت کا جواز فراہم کرتے ہیں بہتریہ ہے کہ سیاستدان اپنے مسائل حل کرنے کی خود میں صلاحیت پیداکریں اور ہر بار اِدھر اُدھرسے مددحاصل کرنے سے اجتناب کریں جس کے لیے لازم ہے کہ آئین و قانون کی پاسداری کی جائے پنجاب میں آئی جی عامر ذوالفقار اور چیف سیکرٹری عبداللہ سنبل کی تعیناتی بھی وفا ق کی دھونس کا حصہ ہے مگر یہ مت بھولا جائے کہ حالات بدل چکے عوام میں شعور آگیا ہے گورنر ہاؤس کے باہراحتجاج کا یہ واضح پیغام ہے کہ لوگ نہ صرف اپنے حقوق کے لیے آواز بلندکرنے کی ہمت رکھتے ہیں بلکہ کسی طرف سے ہونے والی دھونس ودھاندلی کا ارتکاب روکنے کے لیے بھی پُرعزم ہیں حکمران ذہن نشین رکھیں غیر قانونی اور غیر آئینی حرکات کے اثرات انتخابی نتائج کوبھی متاثر کر سکتے ہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ سیاسی کھیل کو آئین و قانون کے مطابق رکھا جائے۔
گورنر نے اسمبلی اجلاس کے متعلق سپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اتفاق نہیں کیاحالانکہ سپیکر کی رولنگ عدالت میں بھی چیلنج نہیں کی جاسکتی جواب میں سپیکر نے صدر عارف علوی کولکھے خط میں گورنرکو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے نمائندے گورنر بلیغ الرحمٰن کو آئین شکنی پر مبنی اقدامات سے روکیں یہ بحران سنگین ہونے کی طرف اشارہ ہے حالات دیکھ کر تحریکِ عدمِ اعتماد واپس لے لی گئی ہے اِس سے بھی بدنیتی کے ساتھ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ ہاؤس کی اکثریت نہیں اب آسان اور سیدھا طریقہ کار تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم اگر اسمبلی بچانے میں سنجیدہ ہے تو پی ٹی آئی قیادت سے براہ راست رابطہ کرے اور عام انتخابات کے لیے کسی ایسی تاریخ پر اتفاق پیداکرنے کی کوشش کرے جو دونوں کے لیے قابلِ قبول ہواِس کے لیے رابطے کابہترین ذریعہ صدر عارف علوی اور اسحاق ڈار کی صورت میں موجود ہے لیکن یہ آسان اورسیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجائے کیوں پیچیدہ روش پر گامزن ہے؟ سب کے لیے ناقابلِ فہم ہے شاید پی ڈی ایم عوام میں اپنی عدمِ مقبولیت سے خوفزدہ ہے اسی لیے انتخابات سے فرار کی راہ تلاش کرنے کے سواکسی اور طرف آنے کو آمادہ نہیں۔ حکمران اتحاد اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات رکوانے کے لیے ہائیکورٹ چلا گیا ہے مگر ذہن میں رکھنے والی بات یہ ہے کہ آج نہیں تو کل انتخاب کی طرف تو ہر صورت جانا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ آئین و قانون کے منافی حرکات کے بجائے اچھے اور ذمہ دار طرزِ عمل کا مظاہرہ کرے تاکہ عام لوگوں کا اعتماد بحال رہے مگر فی ا لوقت فیصلوں اوراقدامات سے ایسا تاثر نہیں ملتا کہ پی ڈی ایم اتحادآئین وقانون کی پاسداری پر یقین رکھتا ہے عام تاثر یہ ہے کہ پی ٹی آئی اِس وقت ملک کی واحد مقبول ترین جماعت ہے اسی بنا پر فوری انتخابات کے مطالبے پر بضد ہے جبکہ عدم مقبولیت کی بناپر حکمران اتحادفرار کی راہیں تلاش کرنے اور اقتدار سے چمٹے رہنے کا خواہاں ہے اِس تاثر کو جتنی جلدممکن ہو ختم کرنا حکمران اتحاد کے لیے سود مند ہے اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ پنجاب میں سیاسی رسہ کشی فیصلہ کُن موڑ پر ہے لہٰذا سوچ سمجھ کرفیصلے کرنے کی روش نہ اپنائی گئی تو ممکن ہے وقتی طورپر اقتدار کو طول مل جائے لیکن سیاسی مستقبل تابناک رہنے کا امکان ختم ہو جائے گا۔