سانحہ سیالکوٹ کے خلاف سینیٹ میں مذمتی قرارداد منظور

سانحہ سیالکوٹ کے خلاف سینیٹ میں مذمتی قرارداد منظور
کیپشن: سانحہ سیالکوٹ کے خلاف سینیٹ میں مذمتی قرارداد منظور
سورس: فائل فوٹو

اسلام آباد: سانحہ سیالکوٹ کے خلاف سینیٹ میں مذمتی قرارداد منظور کر لی گئی جس میں سری لنکن شہری کے مجرموں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا گیاہے۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیرصدارت  اجلاس میں سینیٹ میں  قائد ایوان شہزاد وسیم نے سری لنکن شہری پرینتھا کمارا کے قتل پر متفقہ قرارداد پیش کی۔ مذمتی قرار داد میں کہا گیا ہے کہ انتہا پسندی ہر شکل میں قابل مذمت ہے،سانحہ سیالکوٹ انتہا پسند عناصر کے مائنڈ سیٹ کی عکاسی کرتا ہے اور ایسا ظالمانہ واقعہ اسلام کی تعلیمات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔سری لنکن شہری کے خاندان سے تعزیت کرتے ہیں۔

قرارداد میں ایوان نے معاشرے میں ایسے رویوں کی موجودگی پر اظہار تشویش کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت اقدمامات کرے تاکہ معاشرے سے پرتشدد رجحانات کا خاتمہ ہو۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ سینیٹ کا ایک وفد سری لنکن شہری سے تعزیت کے لیے سری لنکا جائے گا۔

سینیٹر عطا الرحمان نے سانحہ سیالکوٹ پر سری لنکن حکومت سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں جب روس آیا اور پاکستان کو بیرونی قوتوں کا آماجگاہ بنایا تو ملک کو آمر کے حوالے کیا گیا۔ حکومت کو ملک میں مہنگائی یا عوام کی پروا نہیں بلکہ اپنی بیرونی قوتوں کو خوش کرنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعین کرنا ہو گا کہ طالبان کو مذہب کے لبادے میں بنانے کا کردار کس نے ادا کیا ؟

اس سے قبل قائد ایوان شہزاد وسیم نے معمول کا ایجنڈا معطل کرنے کی تحریک پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ قائد ایوان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اپنے بچوں کو شدت پسندی سے محفوظ کرنا ہے اور ہمیں مل کر قانون سازی، تربیت اور ذہن سازی کرنا ہو گی۔

بابر اعوان نے سانحہ سیالکوٹ پر تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ سیالکوٹ واقعے نے سوالات اٹھائے اور ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا اور ملزمان کے خلاف چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ امید ہے پولیس 7 روز میں چالان عدالت میں پیش کرے گی اور عدالت قانون کے مطابق ملزمان کو سزا دے گی۔

انہوں نے کہا کہ فوجداری قوانین کے نقائص دور کرنے کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا۔ اے پی ایس سانحہ کے کچھ مقدمات ابھی تک عدالت میں پڑے ہیں جبکہ موٹروے، زینب اور نورمقدم کیسز کے فیصلے جلد نہیں ہو رہے ہیں۔

سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے سانحہ سیالکوٹ کی تحریک التوا پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ بڑھ رہا ہے، 60 اور 70 کی دہائی میں عدم برداشت اور انتہا پسندی نہیں تھی۔ اس سانحہ سے قبل سیالکوٹ میں 2 بھائیوں کو بھی بے دردی سے قتل کیا گیا تھا اور دونوں بھائیوں کی ویڈیو بنائی گئی لیکن کسی نے ہجوم کو نہیں روکا جبکہ کیس کے ملزمان کو 2019 میں چھوڑ دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سماجی بے حسی کے خلاف سب کو لڑنا ہو گا، قصور میں بھی بھٹہ مزدور کو بھٹی میں ڈالا گیا تھا اور واقعے کے ملزمان کو بری کر دیا گیا۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے حزب اختلاف اور حکمران جماعت کی سوچ میں یکسانیت ہے جبکہ شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے اقدامات پر عمل ہوتا تو حالات مختلف ہوتے۔ ضیا الحق کے دور میں ایک مخصوص سوچ کو پروان چڑھایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری ثقافتیں جڑیں عرب میں نہیں بلکہ سندھ وادی میں ہیں۔ مقامی زبانوں اور ثقافتوں کو دبانے کے لیے باہر کا کلچر لایا گیا۔ جب تک مسائل کی جڑ نہ پکڑی جائے چیلنجز آتے رہیں گے جبکہ شدت پسند گروہوں نے شہروں اور قبائلی علاقوں میں متوازی عدالتیں قائم کی ہیں جبکہ شدت پسند گروہوں نے ریاست کی رٹ کو پارا پارا کر دیا اور وہ خاموش رہی۔ ریاست پارلیمنٹ کو اپنے مقاصد کے لیے نقاب کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔

رضا ربانی نے کہا کہ جب تک مسائل کی جڑ نہ پکڑی جائے واقعات ہوتے رہیں گے اس لیے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد بہت ضروری ہے۔ طالبان افغانستان میں قوت کے ساتھ جیت کر آئے ہیں اور شدت پسندوں کے ساتھ خفیہ معاہدے درست نہیں۔

وزیر ریلوے اعظم سواتی نے کہا کہ سیالکوٹ کا واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے اور ہم سب کو مل کر انتہا پسندی کے خلاف کام کرنا ہو گا۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ سانحہ سیالکوٹ دہشت گردی کا بدترین واقعہ ہے اور واقعے سے پاکستان کی عالمی سطح پر بدنامی ہوئی۔ سری لنکا ہمارے ہاں آنکھوں کا عطیہ دینے والا ملک ہے۔ اس سے پہلے جب اجلاس شروع ہوا تو شوکت ترین نے بطور سینیٹر اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔