دوستو، دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی’’ کرسمس‘‘ مسیحی برادری کل بڑے جوش و خروش سے منائے گی۔۔ ہمارے لوگ اتنے معصوم ہیں کہ اگر ان سے غلطی سے پوچھ لیا جائے کہ حکومت نے اس دن عام تعطیل کا اعلان کیوں کیا ہے تو وہ بڑی معصومیت سے جواب دیتے ہیں کہ کرسمس کی وجہ سے۔۔ اس میں قصور عوام کا تو ہے ہی لیکن ہمارا میڈیا بھی قصوروار ہے جس نے بانی پاکستان قائداعظم کے حوالے سے پروگرام دکھانا بند کردیئے ہیں۔۔۔ ہمارا حال بھی بچپن میں بالکل میڈیا کی طرح تھا، ایک بار ہمارے ٹیچر نے سوال کیا، علامہ اقبال اور قائد اعظم میں کیا چیز ایک جیسی ہے؟؟ ہم نے بڑے بھولپن سے کہا۔۔سر یہ دونوں چھٹی والے دن پیدا ہوئے تھے۔۔ اس جواب کے بعد ہماری چھٹی بند کردی گئی تھی۔۔
کرسمس لفظ میں ’’مس‘‘ آتا ہے اور مس تو ہمیشہ مونث ہی ہوتی ہے، اسی طرح کرسمس منائی جاتی ہے اس لئے بھی اسے مونث کہاجاسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسیحی برادری کے اس تہوار پر سب سے زیادہ خوشی بھی خواتین کے چہروں پر ہی نظر آتی ہے، دوسرا عشرہ شروع ہوتے ہی کراچی کے بازاروں میں مسیحی خواتین بڑے جوش و خروش سے شاپنگ کرنا شروع کردیتی ہیں کیوںکہ یہ تہوار شاید اسی طرح مناتے ہیں جیسے ہم مسلمان عیدمناتے ہیں۔۔ کرسمس کے حوالے سے یورپ اور مغرب میں سانتا کلاز کا کردار بھی بہت ڈسکس ہوتا ہے۔۔ جو لال کلر کے ڈریس میں اور لال کلر کی ٹوپی میں ہوتا ہے۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ سانتا کلاز ہمیشہ مرد ہی کیوں ہوتا ہے؟ خواتین سانتا کلاز کیوں نہیں ہوتیں۔۔سوال اتنا ٹیڑھا تھا کہ ہمارے دماغ کی دہی بن گئی لیکن ہم اپنے پیارے دوست کو مطمئن نہ کر سکے، آخر ہار ماننے پر بتانے لگے۔۔ خواتین سانتا کلاز ہوہی نہیں سکتیں،ہم نے بڑی شدت سے وجہ دریافت کی تو کہنے لگے۔۔ خواتین ہرسال پر ایک سوٹ پہن ہی نہیں سکتی تو پھر سانتا کلاز کیوں بنیں گی؟؟
کہتے ہیں کہ کسی پرانے دوست سے عرصے بعد ملنا ایک خوشگور تجربہ ہوتا ہے اس میں پرانی یادیں اور ایک دوسرے کی آپ بیتیاں سننا اور ایک دوسرے کے تمام حالات جاننے کی خواہش ملاقات کو اور دلچسپ اور خوشگوار بنادیتی ہے۔لیکن!!! ۔۔دو موضوع ایسے ہیں جنہیں اگر چھیڑ دیا جائے تو یہی ملاقات شرمناک تجربے میں بھی بدل سکتی ہے۔ ایک آمدنی یا ذریعہ آمدنی اور دوسرا جسمانی ظاہری حالت۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ 2 موضوعات ایسے ہیں کہ اگر سامنے والا دوست زندگی کے آلام و مصائب میں گھرا ہوگا تو ایسا سوال اسے نفسیاتی طور پر انتہائی غیر محفوظ بنادے گا اب یا تو وہ جھوٹ بولے گا لیکن پھر اندر اندر ہی شرمندہ اور احساس کمتری میں مبتلا رہے گا یا اگر سچ بتاتا ہے تو دوست کے ترس کھانے سے خود کو بچا نہیں پائے گا۔جسمانی ظاہری حالت سے متعلق بات نہ کرنے سے مراد اس کے وزن یا کوئی اور جسمانی عیب کو موضوع بحث بنانا ہے، اس سے بچا جائے جبکہ دوسرا حساس موضوع اس کی آمدنی یا ذریعہ آمدنی ہے۔ درحقیقت یہ سوال کسی دوست سے تو کیا کسی بھی شخص سے نہیں کرنا چاہیے۔
کراچی ان دنوں سردی کی لپیٹ میں ہے، کوئٹہ جب یخ بستہ ہوتا ہے تو اس کے اثرات کراچی میں محسوس کئے جاتے ہیں۔۔ خاتون خانہ نے انتہائی غصے کے عالم میں شوہر سے سوال کیا۔۔ اتنی سردی میں آپ نے صبح صبح مجھ پر پانی کیوں ڈالا؟، شوہر نے معصومیت سے کہا،تمہارے ابانے کہا تھا، میری بیٹی پھول کی طرح ہے اسے کبھی مرجھانے نہیں دینا۔۔یعنی شوہر صاحب ’’تروکہ‘‘ مار کر پھول کو مرجھانے سے بچارہے تھے۔۔۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں،صبح سویرے اٹھنا چاہیئے، ایکسرسائز کرنے سے بندہ صحت مند رہتا ہے۔۔ مرغا صبح سب سے پہلے اٹھتا ہے،بانگ دے دے کر سب کو جگاتا ہے، پھر شام کو اس کے تکے یا کڑاہی بن چکے ہوتے ہیں۔۔۔اس لئے سردیوں کی ٹھنڈی ٹھنڈی صبح میں سوتے رہا کرو، کوئی ضرورت نہیں ڈاکٹرز کی باتوں میں آنے کی۔۔صبح اٹھنے کے بعد آج کل ہماری پہلی ٹینشن بریک فاسٹ ہوتا ہے، ہمیں آج تک بریک فاسٹ کی سمجھ نہیں آئی، کہاں ’’بریک‘‘ لگانی ہے اور کہاں ’’ فاسٹ‘‘ ہونا ہے۔۔ شہرقائد میں تو گیس چولہے سے غائب ہوچکی ہے اور اب صرف وہیں سے نکل رہی ہے جہاں اسے ہونا چاہئے۔۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ پراب تو مْرغا بھی ہانڈی سے نکل کہ کہتا ہے۔۔۔۔ بہن جی،آپ کی گیس نہیں آ رہی تھی تو اتنی سخت سردی میں میری وردی کیوں اْتار دی؟۔۔
تیس سال قبل جب پہلی بار فیصل آباد جانا ہوا تھا تو ہمیں اس شہر کے بارے میں ککھ بھی معلومات نہیں تھی،لیکن اب ہمیں اس شہر سے متعلق تازہ بہ تازہ اپ ڈیٹس ملتی رہتی ہیں، اس شہر کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہاں ہر بندہ جگت باز ہے۔ ہمارے ایک دوست پچھلے دنوں فیصل آباد کا چکر لگاکے آئے تو واپسی پر ہمیں سفر کی دلچسپ روداد بھی سنائی، جو واقعات ہمارے ذہن میں رہ گئے وہ آپ سے شیئر کرلیتے ہیں۔۔ دوست کہنے لگا۔۔فیصل آباد میں گھنٹہ گھر کے قریب جہاں سے آٹھ بازاروں کی جانب راستہ نکلتا ہے، ہم نے ایک رکشے والے سے کہا، گھنٹہ گھر جانے کا کتنا کرایہ ہے؟ اس نے ڈھائی سو روپے بتائے، ہم نے کہا، بھائی یہ سامنے تو گھنٹہ گھر کھڑا ہے، رکشے والا کہنے لگا، ویرے دھیان سے ،کہیں ہاتھ ہی نہ لگ جائے۔۔خیر میں رکشے میں بیٹھ گیا، رکشہ میں ایک آدمی بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا میں نے کہا ،بھائی یہ مجھے دے دو تم نیا لگا لو،وہ بولا، کیوں؟ اینوں سال ہوگیا؟؟۔۔پھر سارا سفر خاموشی میں گزرا۔۔ میزبان کے گھر پہنچے،فریش ہونے کیلئے باتھ روم کی طرف گئے اور میزبان سے پوچھا بھائی پانی گرم ہے؟اس نے جواب میں کہا، کیوں ویرے انڈے ابالنے ہیں؟؟ شادی کی تقریب میں شرکت کی۔۔کھانا شروع ہوا،دلہا نے پلیٹ میں ٹشوپیپر دیکھ کر سوچا،شاید یہ بھی کوئی کھانے کی چیز ہوگی،اس نے جیسے ہی ایک ٹشو اٹھا کر منہ میں رکھنے کی کوشش کی، اس کے سارے دوست بیک وقت چلائے۔۔اوئے چٹنی لاکے کھاویں، پھکا ای۔۔جب واپس آناتھا تو سوچا ہسپتال میں اپنے ڈاکٹر دوست سے ملتے جائیں، اتفاق سے پھر اک رکشہ والا ملا ،اس سے پوچھا بھائی الائیڈ ہسپتال جانا ہے۔۔وہ بولا۔۔ کسی ٹرک وچ وج آپے الایڈ چھوڑ آسن۔۔۔ریلوے سٹیشن جاناتھا، رکشے والوں کی جملے بازی سن کر لاری اڈے پہنچا ،کنڈیکٹر سے پوچھا،بس میں سیٹ ہے؟؟ وہ بولا، نہیں ویرے اندر دریاں وچھائیاں نے۔۔میں نے پھر پوچھا، جگہ ہے۔۔ کہنے لگا۔۔ جگہ بیچ کے تے گڈی لی آ۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔شادیوں کا سیزن ہے، شادیوں کی تقاریب صرف کنوارے ہی انجوائے کرتے ہیں، شادی شدہ بے چارے تو اس غبارے والے کو تلاش کرتے رہتے ہیں جن سے دوسروں کے بچے غبارے خریدخرید کرلارہے ہوتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔