بھارت میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد مسلم تہذیب و تمدن کے آثارختم کا سلسلہ زور پکڑ گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اب بھارت کی سیاست کا مرکزی نکتہ ہی برصغیر پر مسلم تہذیب کے اثرات سے چھٹکارا اور مسلمانوں کی نشانیاں مٹانا بن گیا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال گزشتہ دنوں اس وقت دیکھی گئی جب بھارت کے تاریخی حیثیت کے شہر الٰہ آباد کا نام اتر پردیش کی ریاستی حکومت کی جانب سے تبدیل کر کے ’’پریاگ راج‘‘ اور فیض آباد کا نام بدل کر ’’ایودھیہ‘‘ رکھا گیا۔
الٰہ آباد جیسے تاریخی شہر کا نام تبدیل کرنے کی مضحکہ خیز وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ شہر کا ’’اصلی اور پرانا‘‘ نام پریاگ راج ہی تھا۔ حکومتی جماعت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ صرف تاریخ میں درج ’’غلطیوں‘‘ کو درست کر رہی ہے۔ حالانکہ تاریخ دان اس بات کو سرے سے نہیں مانتے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر این آر فاروقی کے مطابق تاریخی دستاویزات اور کتابوں کے مطابق پریاگ راج نام کا کبھی کوئی شہر بسا ہی نہیں، البتہ ’’پریاگ‘‘ نام سے منسوب ہندوؤں کا ایک زیارتی مقام ضرور ہوا کرتا تھا، جس کا ذکر اب صرف کتابوں میں موجود ہے۔
بی جے پی دہلی کی مشہور زمانہ شاہراہ ’’ اکبر روڈ‘‘ کا نام بدل کر ’’ بپن راوت روڈ ‘‘کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اب اترپردیش حکومت نے آگرہ میں زیر تعمیر ’مغل میوزیم‘ کا نام بدل کر ’’ شیوا جی‘‘ میوزیم کر دیا ہے۔ تبدیلی کا حکم نامہ جاری کرتے صوبے کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے کہا کہ ’’ مغل ہمارے ہیرو نہیں ہو سکتے اور ہم اترپردیش میں غلامی کی کسی یادگار کو نہیں رہنے دیں گے‘‘۔ اس سے پہلے یوگی سرکار اِلہٰ باد کو پریاگ راج، فیض آباد کواجودھیا، مغل سرائے جنکشن کو پنڈت دین دیال اپادھیا جنکشن کر چکی ہے۔
شہروں کے ناموں سے جی نہیں بھرا تو محلّوں تک کے نام بدلنے کا کام شروع کر دیا۔ گورکھپور کے علی نگر کو آریہ نگر، اردو بازار کو ہندی بازار، ہمایوں نگر کو ہنومان نگر، مینا بازار کو مایا بازار بنا دیا گیا۔
مسلمانوں کی حکمرانوں کو ’’ غلامی‘‘ کے دور سے منسوب کرنے والا جنونی ہندو ٹولہ ’’ انگریزوں‘‘ کی ہندوستان میں حکمرانی پر کوئی اعتراض نہیں اٹھاتا۔ انگریزوں کے ناموں سے منسوب تمام علاقوں کے نام جوں کے توں رہنے دیئے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر دہلی کے حکمرانوں کی لکھنؤ کے کنگ جارج میڈیکل کالج، کلکتہ کی رائٹرس بلڈنگ، راشٹرپتی بھون دہلی، فورٹ ولیم کلکتہ، وکٹوریہ میموریل کلکتہ، کونسل ہائوس لکھنؤ، مے یو میموریل ہال الہ باد، گیٹ وے آف انڈیا ممبئی، انڈیا گیٹ دہلی، سینٹ میری چرچ چنئی جیسے مقامات کا نام تبدیل کرنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی۔
ہندو انتہا پسندوں کی تنظیم ہندو مہاسبھا کی علی گڑھ شاخ نے ایک ہندو کیلنڈر جاری کیا، جس میں مسجدوں ا ور مغل دور کی یادگار عمارتوں کا نام بدل کر لکھا گیا ہے۔ اس کیلنڈر میں تاج محل سمیت 7 مساجد اور دورِ مغلیہ کی عمارتوں کی تصاویر لگائی گئی ہیں۔ اس حوالہ سے ہندو مہا سبھا کا دعویٰ ہے کہ یہ تمام عمارتیں درحقیقت مندر ہیں۔ ہندو نئے سال کے کیلنڈر میں آگرہ کے تاج محل کو ’’تیجو مہالیے مندر‘‘ بتایا گیا ہے۔ وہیں مدھیہ پردیش کی کنول مولا مسجد کو ’’بھوج شالا‘‘اور بنارس کی گیان واپی مسجد کو ’’وشو ناتھ مندر‘‘ بتایا گیا ہے۔مذکورہ کیلنڈر میں قطب مینار کو بھی مندر قرار دیتے ہوئے اسے ’’وشنو استمبھ‘‘ اور جونپور کی اٹالا مسجد کو ’’اٹلا دیوی کا مندر‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ایودھیا کی شہید ہو چکی بابری مسجد بھی اس کیلنڈر میں شامل ہے، جسے ’’رام جنم بھومی‘‘ دکھایا گیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر، جموں و لداخ پر قبضے کے بعد مودی سرکار وہاں بھی مسلمانوں کے نام پر موسوم جگہوں کے نام تبدیل کرنا شروع کررہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حریت رہنماؤں اور تنظیموں نے مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کی شناخت کو مکمل طور پر چھیننے کے لیے تعلیمی اداروں، سڑکوں اور دیگر تاریخی عمارتوں اور مقامات کے نام تبدیل کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ تاریخی مقامات کے نام ہندو رہنماؤں کے نام پر رکھ کرتنا زع کشمیر کی حیثیت کو تبدیل اور کشمیریوں کو جائز جدوجہد سے باز رکھنے پر مجبور کر سکتی ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہی ہے۔ ہندوتوا حکومت کشمیری عوا م کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے اہم کشمیری مقامات کے نام بے گناہ کشمیریوں کے قاتلوں کے نام پر رکھ رہی ہے۔ بھارتی حکومت نے ایسے ہی ایک تازہ اقدام میں کولگام میں ایک سرکاری کالج کا نام تبدیل کر کے درجنوں کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل میں ملوث ایک بدنام زمانہ پولیس افسر کے نام پر رکھا ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں نے کئی سو برس حکومت کی، لیکن مذہبی رواداری اور ہندو مذہب سمیت کسی کو زبردستی مسلمان بنانے یا غیر مسلموں کے مذہبی مقامات کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کیے۔ مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرنے کے لیے انتہا پسندوں نے فسانے تراشے، انہیں لوٹ مار کرنے والے ڈاکو سمیت کئی جھوٹے قصے گاڑنا شروع کر دیے۔ بھارت نے نئی نوجوان نسل کو اپنی فلمی صنعت کے ذریعے بھی گمراہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا، جس کی تازہ مثالوں میں متنازع فلمیں ’’پدماوتی‘‘ اور ’’پانی پت‘‘ جیسی فلمیں ہیں۔ ’’پدماوتی‘‘ میں مسلم حکمراں علاؤ الدین خلیجی کے کردار کو جس طرح مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے، وہ ایک بدترین عمل تھا۔ اب یہی عمل ’’پانی پت‘‘ نامی فلم میں احمد شاہ ابدالی کے کردار کے ساتھ کیا جا رہا ہے، جس پر پختون حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے، یعنی یہ کہنا زیادہ بجا ہوگا کہ بھارت کی فلمی صنعت بھی مودی سرکار کی ’’ہندو توا پالیسی‘‘ پر چل رہی ہے۔ جس کی وجہ سے شدت پسندی میں اضافہ ہورہا ہے۔