شام کے شمال مغربی صوبے ادلب میں 13دسمبر کو القاعدہ کا ایک تربیتی کیمپ امریکی میزائل حملے کا نشانہ بنا، ایک رپورٹ کے مطابق اس حملے میں 25دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ امریکا نے نیٹو اتحادی ترکی کو حملے سے قبل کوئی نوٹس جاری نہ کیا جس کی ادلب میں 12 چیک پوسٹیں ہیں۔ اسی طرح روس کو بھی مطلع نہ کیا جس کے ساتھ غیر ارادی محاذ آرائی سے بچنے کے طریقہ کار پر امریکا نے کئی مرتبہ اتفاق رائے کیا۔ ادھر جس مہارت کے ساتھ ہدف کو نشانہ بنایا گیا، اس سے لگتا ہے کہ حیات تحریر الشام کے زیر کنٹرول علاقہ میں انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کے امریکا کے پاس غیر معمولی ذرائع ہیں۔ میزائل حملے کے لیے وقت کا انتخاب بھی حیران کن ہے کہ ایسے وقت حملہ ہوا جب گروپ کے رہنماؤں کا اجلاس ہو رہا تھا۔میزائل حملے پر ترکی اور روس نے سخت حیرانگی کا اظہار کیا کیونکہ امریکی فوجی موجودگی دریائے فرات کے مشرق میں ہے، ادلب میں امریکی فورسز کا کوئی وجود نہیں۔ اس خطے کی سلامتی یا کشیدگی میں کمی کی مانیٹرنگ آستانہ امن عمل کے تین ضامن روس، ترکی اور ایران کرتے تھے۔
امریکی سنٹرل کمانڈ نے ایک جاری بیان میں کہا کہ میزائل کا ہدف انتہا پسند رہنما تھے جو کہ امریکی شہریوں، پارٹنرز اور معصوم شہریوں پر حملوں کے ذمہ دار تھے۔ یہ امریکی دعویٰ اس لیے قابل یقین نہیں کیونکہ خطے میں امریکی مفادات نام کی کوئی چیز نہیں۔ امریکا کا زیادہ فوکس مشرقی دریائے فرات میں کردوں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانا اور محفوظ علاقوں کے قیام کے لیے ترکی کے ساتھ مذاکرات کرنا ہے،
جس کی حدود کی ابھی تک کوئی تعریف نہیں کی گئی۔ میزائل حملے کا بظاہر مقصد یہ دکھائی دیتا ہے کہ امریکا طاقت کا مظاہرہ کر کے ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ بھی شمال مغربی شام بلکہ ادلب میں ایک اہم فریق ہے۔ روس، ترکی اور ایران ادلب کو ایک نجی معاملے کے طور پر دیکھتے رہے ہیں۔ اس حملے پر روس کا ردعمل کافی سخت تھا، اس نے شکوہ کیا کہ اسے یا ترکی کو خبردار کیے بغیر یہ حملہ کیا گیا اور اس سے جنگ بندی داؤ پر لگ گئی ہے۔ روس اور ترکی کا دونوں کا ردعمل اگرچہ بظاہر سخت تھا مگر ان کے لیے اس میں پریشانی والی کوئی خاص بات نہ تھی کیونکہ حملے میں مشترکہ دشمن مارے گئے تھے۔ البتہ منفی ردعمل کی وجہ یہ حقیقت ہے کہ اب امریکا بھی خطے میں فریق ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ شام کے پیچیدہ تھیٹر میں تقریباً ہر کارروائی کے فوائد و نقصانات دونوں ہو سکتے ہیں۔ امریکا خطے سے انتہا پسندوں کا خاتمہ چاہتا ہے مگر کبھی نہیں چاہے گا کہ اس خاتمے کا فائدہ شامی حکومت اٹھائے۔ روس اور ترکی دونوں امریکی حملے پر خوش ہو سکتے ہیں مگر امریکا کو بالا دستی حاصل کرتے ہوئے کبھی دیکھنا نہیں چاہیں گے۔ اسد حکومت کے لیے انتہا پسندوں کا خاتمہ کسی بھی صورت میں خوش آئند ہے، مگر اس میزائل حملے کو اپنے خلاف طاقت میں بدلتے دیکھنا نہیں چاہے گی۔
روس کے ردعمل کی ایک وجہ یہ خدشہ ہے کہ اس سے کشیدگی میں خاتمے کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ حالانکہ اس عمل کی کامیابی کا روشن امکان نہیں۔ ادلب کا ایک فریق ترکی ہے جس کے آستانہ امن عمل کے دیگر ضامنوں سے اختلافات ڈھکے چھپے نہیں۔ دریائے فرات کے مشرقی علاقے میں سکیورٹی زون کے قیام پر امریکا ترکی مذاکرات بھی خطے کی صورتحال کو پیچیدہ بناتے ہیں۔ بار بار تاخیر کے بعد گزشتہ اتوار کو دونوں ملکوں کے فوجیوں نے مشترکہ پٹرولنگ کی۔ ترکش صدر طیب اردوان اعلان کر چکے ہیں کہ اگر جنوری تک کوئی معاہدہ نہ ہو سکا تو ترکی پورے عمل سے علیحدہ ہو جائیگا۔ جنرل اسمبلی کے گزشتہ اجلاس کے موقع پر بائیڈن کے ساتھ ملاقات میں وہ واشنگٹن کے ساتھ چند دیگر مسائل بھی طے کرنا چاہتے ہیں۔ ادلب میں ترکی کو ڈیڈلاک کا سامنا ہے، انخلا کی سٹریٹجی تجویزکی جا چکی ہے، جیسے کہ مشرقی فرات کی طرح صوبے کے شمال میں سکیورٹی زون کا قیام وغیرہ۔ اس قسم کے زون ترکی کے حمایت یافتہ مسلح گروپوں کا ٹھکانہ بن سکتے ہیں، جس کی امریکا حمایت کر سکتا ہے تاکہ انتہاپسندوں کے ذریعے شامی حکومت پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کا حل قبول کرنے پر مجبور کر سکے۔ کیونکہ اس طرح دریائے فرات کے مشرق سے انقرہ کی توجہ ہٹ سکتی ہے۔ اس پوری مساوات میں شام کا کردار کہیں نہیں۔ امریکا دانستہ یہ حقیقت نظر انداز کر سکتا ہے۔ دمشق تمام مسلح گروپوں کے خاتمے کیلئے پُرعزم ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے گروپ نیا ٹھکانہ کہاں بنائیں گے۔ انقرہ کے لیے یہ صورتحال ڈراؤنے خواب سے کم نہ ہو گی کہ مسلح گروپ سر چھپانے کے لیے ترکی کا ہی رخ کر لیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکی میزائل حملہ شمال مغربی شام میں نئی صف بندیوں کا پیش خیمہ بنتا ہے یا پھر اس سے کوئی نیا پنڈورا باکس کھلتا ہے جس کے نتائج کا فی الوقت اندازہ لگانا ممکن نہیں۔
(بشکریہ: گلف نیوز)