پنوم پن: کئی سالوں تک پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے چڑیا گھر میں تنہا زندگی گزارنے والے کاون ہاتھی کو کمبوڈیا میں ایک ہتھنی مل گئی ہے۔ دونوں میں دوستی ہو چکی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کاون ہاتھی نے کمبوڈیا سینکچوری میں ہتھنی میں دلچسپی ظاہر کر دی ہے۔ کاون ہاتھی اب زیادہ عرصہ اکیلا نہیں رہے گا۔ سینکچوری کے نگران کا کہنا ہے کہ نئے ماحول میں کاون ہاتھی کی سماجی زندگی میں بہتری آ رہی ہے۔
دوسری جانب کمبوڈیا کے وزیر ماحولیات کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امید ہے کہ کاون ہاتھی کمبوڈیا میں کئی بچوں کا باپ بن سکے گا۔ خیال رہے کہ کاون ہاتھی کو گزشتہ ماہ پاکستان سے کمبوڈیا منتقل کیا گیا تھا۔ 2012ء میں مرغزار چڑیا گھرمیں کاون ہاتھی اپنی مادہ دوست کی ہلاکت کے بعد تنہائی کا شکار ہو گیا تھا۔
کاون ہاتھی 1981ء میں سری لنکا میں پیدا ہوا تھا۔ اس کی عمر صرف چار سال تھی جب سری لنکن حکومت نے اسے پاکستان کو تحفے میں دیدیا تھا۔ پاکستان لانے کے بعد اسے اسلام آباد کے چڑیا گھر میں رکھا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کاون ہاتھی بچوں کا سب سے پسندیدہ جانور بن گیا۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں بچے اور بڑے اسے دیکھنے آتے، تصویریں کھنچواتے اور سواری کرتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان لیڈر بلاول بھٹو بھی اپنے بچپن میں کاون ہاتھی پر سوار کر چکے ہیں۔
مرغزار چڑیا گھر میں دیگر جانور تو تھے لیکن کاون ہاتھی اپنی نسل کا وہاں اکیلا جانور تھا۔ کسی حکمران نے اس کا ساتھی ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔ یوں وہ سالوں تک اکیلا رہا لیکن 1991ء کا سال اس کیلئے خوش قسمت رہا جب 1989ء میں سری لنکا میں ہی پیدا ہونے والی ہتھنی سہیلی کو اس کی تنہائی دور کرنے کیلئے بھیج دیا گیا۔ جانوروں کی نفسیات سے نابلد چڑیا گھر کا عملہ دونوں جانوروں کو باندھ کر رکھتا تھا، اس کیلئے لوہے کی بڑی بڑی زنجیروں کا سہارا لیا جاتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہتھنی سہیلی کے پاؤں میں ایسا زخم پیدا ہوا جس نے اس کی صرف بائیس سال کی عمر میں ہلاکت ہو گئی۔
2012ء میں کاون ہاتھی کی طویل تنہائی کا آغاز ہوا جو کئی سالوں تک برقرار رہا۔ ہتھنی کی ہلاکت کے بعد بھی اسے زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا۔ اپنی ساتھی کی اچانک ہلاکت کے بعد کاون ہاتھی اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔ اس کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ گھنٹوں کھڑا رہ کر اپنا سر ادھر اُدھر ہلاتا رہتا۔
2015ء میں دنیا کی توجہ کاون ہاتھی کی جانب متوجہ ہوئی جب امریکا سے آئی جانوروں کی ایک ڈاکٹر ثمر خان نے چڑیا گھر کا دورہ کیا۔ ڈاکٹر ثمر خان کاون ہاتھی کو دیکھتے ہی سمجھ گئی کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔ اس سے ہاتھی کی حالت نہ دیکھی گئی اس لئے اس نے اس کو رہا کرنے کیلئے اپنی کوششیں شروع کر دی اور ایسی پرزور مہم کا آغاز کیا کہ حکومت کو اسے بالاخر کمبوڈیا میں جانوروں کی دیکھ بھال کے مراکز میں بھیجنا پڑا۔