میری کرسمس کہنے کی بجائے مسلمان خاتون نے ایسا جملہ کہہ دیا کہ یورپی ملک عیسائیوں نے مار مار کر ہلکان کردیا، ایسا کیا کہا تھا؟

خود کو تہذیب و ترقی کا علمبردار قرار دینے والے مسلمانوں کو شدت پسند اور متعصب کہتے ہیں

07:24 PM, 24 Dec, 2016

پرتھ : خود کو تہذیب و ترقی کا علمبردار قرار دینے والے مسلمانوں کو شدت پسند اور متعصب کہتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے خلاف ان کی اپنی نفرت اور تعصب کا یہ عالم ہے کہ جسے دیکھ کر درندے بھی شرما جائیں۔ ظلم و بربریت کا ایک ایسا ہی واقعہ ترقی یافتہ ملک آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں پیش آیا۔ اگر کسی غیرمسلم کے ساتھ ایسا سلوک کسی اسلامی ملک میں کیا جاتا تو اب تک ساری دنیا آنسو بہا رہی ہوتی، لیکن چونکہ یہ بربریت ایک مسلمان خاتون کے ساتھ کی گئی ہے لہٰذا مغربی میڈیا بھی خاموش ہے۔

اخبار دی انڈی پینڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ شرمناک واقعہ پرتھ شہر کے نواحی علاقے کی ایک مارکیٹ میں پیش آیا۔ درندگی کا سر عام نشانہ بننے والی مسلم خاتون کا ’قصور‘ صرف یہ تھا کہ انہوں نے کرسمس کو عام چھٹی سے تشبیہہ دے ڈالی تھی۔ خاتون نے پولیس کو بتایا کہ ایک سفید فام شخص ان کے پاس آیا اور ”کرسمس مبارک“ کہا، جس کے جواب میں انہوں نے ”چھٹیاں مبارک“ کہہ دیا۔ یہ جواب سن کر سفید فام شخص بھڑک اٹھا اور درشت لہجے میں کہنے لگا، ” چھٹیاں نہیں، کرسمس مبارک کہو!“ ابھی بیچاری خاتون حیرانی کے عالم میں اس کا منہ تک ہی رہی تھیں کہ اس درندے نے قریب سے شراب کی ایک بوتل اٹھائی اور پوری قوت سے خاتون کو دے ماری۔ متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ وہ اس حملے سے بچنے کے لئے پیچھے کی جانب مڑیں، لیکن شیشے کی بوتل پوری شدت سے ان کی گردن اور کندھے پر لگی جس سے وہ شدید زخمی ہوگئیں۔ بدبخت شخص کو اس پر بھی سکون نہ آیا تو قریب پڑا پتھر اٹھا کر خاتون پر حملہ کر دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس خوفناک حملے سے بچنے کے لئے انہیں تیز رفتار گاڑیوں سے بھری سڑک بھاگ کر عبور کرنا پڑی، جہاں وہ خطرناک حادثے کا شکار ہوتے ہوتے بچیں۔

معلون حملہ آور نے خاتون کے سر سے حجاب بھی نوچ لیا اور غلیظ گالیاں بکتا رہا۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ آس پاس موجود درجنوں افراد میں سے کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ ایک کمزور عورت پر حملہ کرنے والے غنڈے کا ہاتھ روک سکے، کیونکہ اس کا نشانہ بننے والی ایک باپردہ مسلمان خاتون تھی۔

مزیدخبریں