زندہ قومیں اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کرتیں اور ناشکری قومیں اپنے محسنوں کو اپنے ہاتھ سے زہر کے پیالے پلا دیتی ہیں ، تاریخ ایسے تلخ واقعات سے بھری پڑی ہے ، سکول کے نصاب سے لیکر کالج کے نصاب تک قائد کے حالات زندگی پر کسی نے ایک ذرے کے برابر اضافہ نہیں کیا لکیر کے فقیر دانشوروں نے اس مرد حق کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں بتایا بلکہ بچوں کو ایک رٹا لگوا رکھا ہے ، پاکستان کا حصول قربانیوں کا نتیجہ ہے ، یہ کوئی نہیں بتاتا کہ وہ کون شخص تھا جس نے سب سے پہلے پاکستان کا تصور پیش کیا تھا اور اسی کے خیال کو کس نے پاکستان کی شکل میں تعبیر میں ڈھال دیا ، بانی پاکستان سے محبت اور لگاؤ تھا ہی مگر میری زندگی کا خوش نصیب دن تھا جب میں نے ایک ایسے مقرر کو سنا جس کی گفتگو میں نہ تو لچھے دار تصنع تھا اور نہ وہ اپنے زور بیاں کی قوت سے سامعین کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا تھا ،اور نہ ہی کو ئی بناوٹ کا عنصر تھامگر اس مقرر کے لیکچر کا انداز بہت مختلف اور پر اثر تھا کہ وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ، میں ممنون ہوں مسعود علی خان کی ، جنہوں نے پاکستان کے لیے مثبت سوچ کو متعارف کرایا ہے اور اس فکر کی روشنی کو معلومات اور تحقیق کی محنت سے آنے والی نسل کو آگاہ کیا ہے ،یہ سیمینار گو کہ یوم آزادی کے حوالے سے قائد اعظم کو خراج تحسین کی غرض سے تر تیب دیا گیا تھا 11 اگست کا دن اور سی ٹی این کا ہال عسکری ، عبقری اور فکری شخصیات سے اپنا حسن بکھیر رہا تھا ، ایک نوجوان ماہر تعلیم نے اس تقریب کو آغاز سے لیکر انجام تک جس خوبصورتی سے نبھایا کہ حاضرین ان کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکے ، میں نے اس سے پہلے زندگی میں اختصار کی منتہا نہیں دیکھی ، اور اس کا نام تھا فہد عباس جو اپنے چائنیز اور جیپنیز دوستوں کے ساتھ ہال میں داخل ہوا تو مسعود علی خان چیئرمین سی ٹی این کے چہرے پر مسکراہٹ کی چاندنی بکھر گئی کیونکہ وہ پاکستان کے ہر نوجوان کو فہد دیکھنا اور اس عہد کو بلند دیکھنا چاہتے ہیں ، میری بات کچھ طویل ہو گئی ہے مگر جوانوں کی حوصلہ افزائی سے آنکھ چرانے والے قوم کا نقصان پورا نہیں کر سکتے ، مسعود علی خان نے اپنے ابتدائی تعارفی کلمات میں آنے والے سکالر کے بارے میں بتایا کہ آپ قائد پر ایک مستند اتھارٹی اور ایک معلومات کی یونیورسٹی ہیں جن کو میں نے پہلے بھی سنا ہوا ہے اور جی چاہتا ہے کہ ان کی گفتگو کو سنا جائے اور دوسروں تک ان معلومات کا ابلاغ کیا جائے ، میں نے میڈیا میں حتی المقدور دوڑ دھوپ کر کے خبر و نظر کی دنیا میں خبر کر دی اور لوگ اب اس ہستی کے بارے میں سکولوں میں لیکچر کے لئے وقت بھی مانگ رہے ہیں ، ائر کموڈور خالد چشتی نے اپنے خطاب میں سیدھی ، سادہ اور بے میل گفتگو کی جو سامعین کے کانوں نے قبول کی اور مقبول عام یوئی اور مقرر کی تقریر میں نہ تو شعلہ نوائی تھی اور نہ ہی قافیہ پیمائی تھی ، جستجو تھی ، تحقیق کا سمندر تھا ، حق گوئی کی ندرت تھی اور پہلی دفعہ نایاب تصویروں کی رونمائی تھی اور اتنی دلربائی تھی کہ میں نے ان تصویروں کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرنے والے شیدائیوں کی حالت دیکھی جن کی عقل دنگ اور وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھے ، مقرر سے پہلے نقیب مجلس نے مجلس لوٹ لی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مسعود علی خان جو خود بھی بین الاقوامی شہرت یافتہ گفتگو کے ماہر ہیں وہ ایک سامع کی حیثیت سے ہمہ تن گوش تھے ، ائر کموڈور خالد چشتی کا انداز بیاں رنگ بدل رہا تھا بلکہ رنگ باتیں کر رہے تھے اور ان کے لب گویا تھے ، اصل خلاصہ آپ کی تقریر کی تاثیر کا یہ تھا کہ وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا محمد علی جناح کی زندگی کے پوشیدہ پہلو جو کسی کتاب میں نہیں ملتے۔ کونسی خوبی تھی جس نے آپ کو قائد اعظم کے اتنے بڑے خطاب کا مستحق قرار دیا اور آپ جنوبی ایشیا کے آسمان پر آزادی کا نیرتاباں بن کر دمکتے رہے ، ایک تو قائد کا کردار دوسرا قائد کی گفتار جس نے عدالت کے ججوں کو بھی متاثر کیا اور گاندھی جیسے شاطر سیاستدان کو بھی دن میں تارے دکھا دیئے ، ائر کموڈور خالد چشتی نے بڑی وضاحت سے بتایا کہ قائد کے کردار کے سحر میں گرفتار بڑے بڑے مخالف بھی نہ بچ سکے ، میں نے خود تاریخ میں پڑھا تھا کہ اگر مسلم لیگ کے پاس کئی ابوالکلام، کئی گاندھی اور کئی پٹیل ہوتے اور کانگرس کے پاس صرف ایک جناح ہوتا تو ہندوستان کبھی بھی تقسیم نہ ہوتا یہ الفاظ یوپی کی گورنر محترمہ سروجنی نائیڈو کے ہیں جس نے کہا تھا جناح انمول ہے اسے خریدا نہیں جا سکتا ، میں 75 ویں یوم آزادی کے موقع پر آج کے اس سیمینار کے انعقاد کا اہتمام کرنے والے سی ٹی این کے ممبران اور خاص طور پر مسعود علی خان کے جذبہ حب الوطنی کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں وطن کی مٹی سے محبت اور عقیدت قابل ستائش ہے کاش کہ ہر پاکستانی اس جذبے سے سر شار ہو ، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی روح کی تسکین کے لئے ایصال ثواب بھی کرتی ہوں جنہوں نے ہمیں آزاد وطن لے کر دیا، سیمینار میں سابق آرمی چیف جنرل احسن حیات ، جنرل مقبول ، بین الاقوامی شہرت یافتہ کارٹونسٹ جاوید اقبال نے بھی خطاب کیا ، آخر میں ڈاکٹر خالد سعید نے ملی نغمہ گایا اور دل و نگاہ میں ایثار و قربانیوں کے کئی مناظر گھوم گئے ، میجر مجیب آفتاب اور آپ کی اہلیہ انتہائی خوبصورت شخصیت کی مالک عذرا آفتاب ، کرنل ممتاز حسین ، ڈاکٹر نوشین خالد ، لیکچرار ماہ نور اور پروفیسر کنول ہمہ تن گوش تھیں۔