کل(پیر) کو میرے والد محترم کی چھٹی برسی تھی، کالم میں نے اُن پر لکھنا تھا، پر ایک خاص سازش کے تحت میرے وطن کو بدنام اور مزید برباد کرنے کا جو مذموم سلسلہ ایک ”مخصوص گروہ“ جسے میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کچھ پاکستان دشمن بیرونی قوتوں کی سرپرستی یا آشیرباد حاصل ہے، نے شروع کررکھا ہے پہلے میں اُس پر بات کرنا چاہتا ہوں، ……خدا کی قسم پاکستان شیشے کا ایسا مرتبان تھا جسے ”آب زم زم“ کے لیے بنایا گیا تھا، ہم نے اِس میں گٹر کا پانی ڈال دیا، یہ جو آج کل، مجھ سمیت، ہرشخص فرشتہ بنا پھرتا ہے اِس وطن کی عزت کو خاک میں ملانے میں اپنا پورا حصہ اُس نے ڈالا،…… مینار پاکستان میں ایک خاتون (ٹک ٹاکرہ) کے ساتھ جو بدسلوکی ہوئی، بدسلوکی کرنے والے اُس کے اپنے تھے یا باہر کے تھے، یہ عمل انتہائی شرمناک انتہائی قابل مذمت ہے، یقین کریں سوشل میڈیا اِس واقعے کو اگر ہوا نہ دیتا خاتون کے لیے یہ شاید معمول کا ایک عمل ہوتا، خاتون کو مبارک ہو جو شہرت کئی برسوں کی جدوجہد کے بعد بھی اُسے شاید نہ ملتی، ایک واقعے نے ایسی ”پارسائی“ اُسے بخش دی اب جس لباس میں اِس واقعے کے بعد وہ نظر آتی ہے ممکن ہے مستقبل میں وہ ہماری اعلیٰ پائے کی ایک ”موٹی ویشنل سپیکر“ ہو، یا ہم اُسے بہت بڑی مذہبی سکالر تسلیم کرلیں، خیراِس میں بعد میں ذراتفصیل سے بات کروں گا، پہلے میں اپنے پچھترویں یوم آزادی کی بات کرلوں، جو پچھلے ہفتے گزرا،میرا خیال تھا محرم الحرام کے احترام میں اِس یوم آزادی پر ناموس رسالت ؐپر اپنی جانیں قربان کرنے کی باتیں کرنے والے لوگ خصوصاً نوجوان وہ ہلہ گلہ یا وہ شوروشرابا نہیں کریں گے جو ہربرس وہ کچھ اِس انداز میں کرتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا ہم پاکستان کا یوم آزادی منارہے ہیں یا ”یوم بربادی“ منارہے ہیں؟۔ حسب معمول اور حسب سابق سڑکوں پر اُس روز جو تماشے، جو ناچ گانے، جو شورشرابے وہلے گلے ہوئے محرم الحرام کا تقدس جس انداز میں اُس روز پامال ہوا، یہ ”پامالی“ یا یہ ”بدسلوکی“ ایک خاتون کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی سے اربوں کھربوں درجے زیادہ تھی مگر سوشل میڈیا اس پر مکمل خاموش رہا، کسی اینکر کو اس کا احساس نہیں ہوا کہ سانحہ کربلا انسانی تاریخ میں ظلم کا بدترین اور سیاہ ترین باب ہے جشن آزادی بلکہ ”جشن مادرپدر آزادی“ مناتے ہوئے اِس سانحے کا ذرا احساس بے شمارلوگوں نے نہیں کیا، کوئی چیخ وپکار اس پر بھی شوشل میڈیا نے کی؟، کسی اینکر نے کوئی پروگرام کیا ہو؟، معاشرے کی اِس بدترین بدعملی پر کوئی آواز اُٹھائی ہو، اِس بار ہمارے یوم آزادی پر پانچویں محرم الحرام تھا۔ بہت برسوں سے ہم تیرہ اور چودہ اگست کی رات گھر سے باہر نہیں جاتے، اِن دوراتوں میں جو طوفان بدتمیزی سڑکوں پر ہوتا ہے، جو تماشے ہوتے ہیں، بداخلاقی کے بدترین جو مظاہرے ہوتے ہیں ہم جیسے اہل وطن پرست سے وہ برداشت نہیں ہوتے، اِسے برداشت کرنے کے لیے، یا اِس کا باقاعدہ حصہ بننے کے لیے اُسی طرح کا حوصلہ چاہیے جس طرح کا حوصلہ یوم آزادی پر مینار پاکستان پر بدسلوکی کا شکار ہونے والی خاتون کا ہے، یا کم ازکم ہمارا ”چاکا“ اُسی طرح کا کھلا ہونا چاہیے، پر پانچویں محرم الحرام کو میرے ساتھ ”سانحہ“ یہ ہوا، کراچی سے میری ایک عزیزہ ہمارے گھر آئی ہوئی تھیں، اُن کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی، ڈرائیور چھٹی پر تھا، کوئی اور خدمت گزار بھی اُس وقت گھر پر نہیں تھا جسے میں اُن کے لیے میڈیسن لینے بھیج دیتا، مجبوراً مجھے خود جانا پڑا، جشن آزادی کے طوفان بدتمیزی میں اپنے گھر شادمان سے جیل روڈ تک کا سفر جو عام حالات میں تقریباً تین چارمنٹ کا ہے، مجھے اڑھائی گھنٹے میں طے کرنا پڑا۔ اور واپسی کا سفر ملا کر چار گھنٹے بعد میں گھر آیا ہوش اُڑے ہوئے تھے، یوں محسوس ہورہا تھا جیسے کسی دوردراز ملک سے پیدل سفرطے کرکے میں گھرواپس پہنچا ہوں، ……جس واہیات انداز میں ہماری نوجوان نسل کے ایک حصہ نے اپنی اپنی گاڑیوں میں اُونچی اُونچی آوازوں میں انڈین گانے لگائے ہوئے تھے یہ اندازہ لگانا مشکل ہورہا تھا یہ پاکستان کا یوم آزادی منارہے ہیں یا ہندوستان کا منارہے ہیں؟، ٹریفک بُری طرح جام تھی، اور اِس میں بے شمار ایمبولینسز بھی پھنسی ہوئی تھیں۔ اُن ایمبولینسزکو راستہ دینے کی ہلکی سی کوشش بھی کوئی نہیں کررہا تھا، چنانچہ میرے اِس یقین میں مزید اضافہ ہوگیا یہ معاشرہ مکمل طورپر بے حِس ہوچکا ہے، اور یہ سڑکوں پر جو ہجوم دکھائی دے رہا ہے یہ اُس معاشرے کی بھرپور نمائندگی کررہا ہے، ایک زمانہ تھا کسی ایمبولینس کے ”ایمرجنسی ہارن یا سائرن“ کی آواز سن کر دل ڈوب جایا کرتے تھے، لوگ اُس ایمبولینس (چاہے وہ خالی ہی کیوں نہ ہوتی) اُسے راستہ دینے کی ہرممکن کوشش کرتے تھے، اب ایمبولینس میں چاہے کوئی مریض آخری سانسیں ہی کیوں نہ لے رہا ہو، اُس کے ایمرجنسی سائرن یا ہارن کو بھی عام گاڑی کا ایک ہارن سمجھ کر نظرانداز کردیا جاتاہے،بے حِسی کی انتہا ہوگئی ہے اور اِس تناظر میں بے بسی کی بھی انتہا ہوگئی ہے، پہلے ہمارے ہاں حادثے ہوتے تھے اب سانحے ہوتے ہیں، چندروز پہلے ایک سانحہ یہ بھی شاہراہ قائداعظم لاہور پر میں نے دیکھا ایک بہت بڑی گاڑی میں سوار کوئی بے حِس اور دولت کے نشے میں مست نوجوان جان بوجھ کر اپنی گاڑی کے پیچھے ایمبولینس کو راستہ نہیں دے رہا تھا، ایمبولینس کے مسلسل ہارن بجانے پر اُس نے اپنی گاڑی ایمبولینس کے آگے کھڑی کردی،اور اپنی گاڑی سے باہر نکل کر ایمبولینس کے ڈرائیور کو گالیاں بکنے لگا، بلکہ اُسے ایمبولینس سے باہر نکالنے کی کوشش بھی کی، ظاہر ہے اُس کا ارادہ ڈرائیور پر تشدد اور اُسے سبق سکھانے کا ہی ہوگا۔ میں نے اِس موقع پر یہ کردار ادا کیا اُس دولت مند کی گاڑی کو تھانے میں بند کرواکر اُس کے خلاف ایف آر درج کروائی، مجھے یقین ہے اُس کے بعد ایمبولینس کیا، کسی سائیکل والے کو بھی ”ٹلی“ بجانے پر راستہ دینے پر وہ مجبور ہو جاتا ہوگا، …… مہذب معاشروں میں کسی سڑک پر کسی ایمبولینس کو راستہ نہ دینا قانوناً جُرم ہے، وہاں کم ازکم اِس قانون کو توڑنے کا تصور بڑے سے بڑا قانون شکن بھی نہیں کرسکتا، مہذب معاشرے راستے دیتے ہیں، ہم راستے روکتے ہیں۔ (جاری ہے)