وطنِ عزیز سے جو چند قابلِ قدر ادبی و فکری مجلے شائع ہوتے ہیں ان میں کراچی سے کتابی سلسلے کی صورت میں نکلنے والا مجلّہ ”مکالمہ“ بڑی نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے مدیر مبین مرزا دنیائے ادب کی معروف شخصیت ہیں۔ اب کے انھوں نے ایک چھوڑ دو مجلّے بھجوائے جن میں ایک سالنامہ ۲۰۲۱ تھا اور دوسرا ”مکالمہ“ کا عام شمارہ (چوّن)۔ اپنے مشمولات اور حسنِ انتخاب کے باعث یہ دونو شمارے وابستگانِ ادب کے لیے عمدہ ارمغان کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مکالمہ اپنے معیاری مندرجات کے باعث ان پرچوں میں شمار ہوتا ہے جن کا بے چینی سے انتظار کیا جاتا ہے۔ شاید اپنے اسی اعلیٰ معیار کے باعث اسے برعظیم کے ممتاز لکھنے والوں کا قلمی تعاون حاصل رہا ہے اور اب بھی ہے۔ جس پرچے میں شمس الرحمٰن فاروقی، شمیم حنفی، ساقی فاروقی، حسن منظر، محمد سلیم الرحمٰن، اسد محمد خاں، ظفر اقبال، خورشید رضوی، اسلم انصاری، انور شعور، ذکیہ مشہدی اور نسبتاً بعد کی نسل کے قلمکار مثلاً افضال احمد سید، فاروق خالد، جلیل عالی، غلام حسین ساجد، محمد حمید شاہد، زاہد منیر، یاسمین حمید، معین نظامی، ناصر عباس نیّر، نجیبہ عارف، امجد طفیل اور متعدد دیگر لکھنے والے شائع ہوتے رہے اور ان میں بہت سے اب بھی ہو رہے ہوں، اس پرچے کے قدرِ اول کی صف میں شامل ہونے سے کسے انکار ہو سکتا ہے۔ اپنے قابلِ قدر سالناموں کے علاوہ، ”مکالمہ“ کا ہمعصر اردو افسانہ نمبر (دو جلد) بھی تو حوالے کی چیز ہے۔
پیشِ نظر شماروں میں افسانہ، شاعری، تراجم، تنقیدی مضامین، خاکے اور تبصرے، غرض بہت سی چیزیں شامل ہیں اور قارئین کے ذوق کی تسکین کا باعث۔ یہ خبر بھی اہلِ قلم کے لیے مسرت کا باعث ہو گی کہ ”مکالمہ“ اس برس کے آخر میں اپنی اشاعت کے کامیاب پچیس برس پورے کر رہا ہے (اجراء: ۱۹۹۶ء) اور یوں جشنِ سیمیں کا سزاوار ہے!
ہر اہم ادبی مجلے کی طرح مکالمہ بھی اپنے مدیر کی شخصیت اور میلانات کا مظہر ہے۔ مبین مرزا وسیع المطالعہ دانشور ہیں اور ادب کا ایک واضح تصور رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں مکالمے کے سالنامے میں ان کا اداریہ ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے اور سچے ادیب کے کردار کی وضاحت کرتا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ آج کا ادیب بھی اپنے پیشروؤں کی طرح بے گناہ، نہتے اور معصوم لوگوں کو آزادی اور روشن خیالی کے نام پر بہیمانہ عصبیت کی بھینٹ چڑھانے والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے بلکہ زیادہ غصے اور نفرت سے۔۔ اور سوچتا ہے ایسے میں بھی اگر ادب کا مذھب سے رشتہ نہیں ہو گا تو پھر انسانیت سے بھی نہیں ہو گا۔ گویا مدیرِ محترم کو بجا طور پر یہ ایقان حاصل ہے کہ ادب اور مذھب میں تعارض نہیں، یگانگت اور موافقت کا رشتہ ہے اور دونو کی حیثیت آفاقی ہے اور دونو کا مقصود اعلیٰ انسانی اقدار کی ترویج و اشاعت ہے۔ تاہم یہاں یہ ذکر کرنا بے محل نہ ہو گا کہ ادیب کا فرض محض اظہارِ نفرت ہی نہیں بلکہ ہمارے نزدیک معاصر بہیمیت کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنا بھی ہے۔ مرزا صاحب اگر معاشرے میں اعلیٰ انسانی اور علمی اقدارکو پامال ہوتے دیکھتے ہیں تو اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ اس ضمن میں مکالمہ شمارہ چوّن میں ان کا اداریہ بھی قابلِ اعتنا ہے جس میں انھوں نے حکومتِ وقت کے ’میرٹ میرٹ‘ کے کھوکھلے نعروں پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے لاہور کے ایک ممتاز علمی ادارے پر ایک غیر مستحق شخص کے تقرر پر احتجاج کیا ہے۔
مکالمہ (شمارہ چوّن) کا ذکر چلا ہے تو اس کے دو ایک مشمولات کا ذکر بھی بے محل نہ ہو گا۔ ایک تو معروف ادیب فاروق خالد کے نثری ”زنداں نامہ“ کی نویں قسط اور دوسرا محمد حمزہ فاروقی کے قلم سے نکلا نامور دست شناس ایم اے ملک کا شخصیّہ۔ دونو تحریریں قابلِ مطالعہ ہیں۔ ”زنداں نامہ“ پڑھتے پڑھتے مارٹن لوتھر کنگ کی ایک سہ سطری تحریر نے مجھے
دیر تک آگے نہیں بڑھنے دیا۔ اس نے کس قدر دکھ کے پیرائے میں عالمی بے حسی کے تناظر میں ایک بہت بڑی حقیقت بیان کر دی تھی۔ یہ وہی مارٹن لوتھر کنگ ہے جس کی تحریر ”میرا ایک خواب ہے“ (آئی ہیو اے ڈریم) سے متاثر ہو کر ہمارے نامور شاعر ن۔م راشد نے ”میرے بھی ہیں کچھ خواب“ جیسی ناقابلِ فراموش نظم لکھی تھی۔ مارٹن لوتھر کنگ نے کتنی دردمندی سے لکھا تھا: ”ہمیں اپنی موجودہ نسل پر اظہارِ تاسف کرنا ہو گا، ظالم اور شیطان صفت لوگوں کی کریہہ حرکتوں پر اس قدر نہیں جس قدر اچھے لوگوں کی خوفناک خاموشی پر“۔ آج ہم اپنے معاشرے میں اچھے لوگوں کی اسی خوفنا ک خاموشی کو بے بسی کے عالم میں دیکھ رہے ہیں اور ہماری آنکھوں کے سامنے بے اصولی، بے ضمیری، قانون شکنی اور شرمناک لابہ گری کا عفریت ہماری توانائیاں چاٹتا جا رہا ہے۔
حمزہ فاروقی صاحب نے ایم اے ملک کا جیتا جاگتا اور پوست کندہ خاکہ لکھا ہے اور ان کے توسط سے بعض مشاہیر کے ہاتھ کی لکیروں کو بولتے اور دیوار کے پار جھانکتے دکھایا ہے۔ ملک صاحب مرحوم نے کئی سال پہلے نوائے وقت میں جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی رحلت کا ذکر کر دیا تھا اور بتایا تھا کہ ان کی قسمت کی لکیر زُحَل کے ابھار پر سیاہ تل سے مل رہی تھی!
مکالمے کا سالنامہ خاصے کی چیز ہے اور لفظاً لفظاً پڑھے جانے کا متقاضی۔ اس مختصر تحریر میں صرف چند مندرجات کا ذکر ممکن ہے۔ حصہ نثر میں نجیبہ عارف کا ’ادھورا خط‘، امجد طفیل کا ’بریکنگ نیوز‘ اور خورشید رضوری کا ’استادِ گرامی‘ بہت دلچسپ ہیں۔ اول الذکر دونو افسانوی تحریریں ہیں اور موخر الذکر خورشید صاحب کے ادب عربی کے نامور استاد صوفی ضیاء الحق کا خاکہ۔ نجیبہ عارف نے حیران کن مگر اسی شدت سے مغموم کر دینے والے اگلے سو سال کا قیاسی نقشہ کھینچا ہے جس کے خدو خال ہمارا نام نہاد الیکٹرانی انقلاب حیرت خیز تیزی سے مرتب کر رہا ہے۔ مصنفہ اپنے ناموجود پڑ پڑ پوتے سے خطاب کرتے ہوئے کہتی ہیں:
”ہو سکتا ہے تم کبھی اصل انسانوں سے مل ہی نہ پاؤ۔ بس ورچوئل زندگی جی کر چلے جاؤ۔ ہر شے ورچوئل ہو۔ سکرین پر دیکھو اور دل میں محسوس کر لو۔ خود مکتفی زندگی۔ تمھیں زندگی بھر معلوم ہی نہ ہو پائے کہ زندگی کا اصل لمس کیسا ہوتا ہے“۔ حقیقت یہی لگتی ہے، سو سال تو دور کی بات ہے، یہ قیامت خیز، تباہ کن، انسانیت سوز، زندگی شکن، مشین کے حضور سجدہ ریز عالمی معاشرہ اگلے چالیس پچاس برس میں اس دھرتی اور اس کے باسیوں کی کیمیا صد فی صد بدل ڈالے گا اور اُس عہد کے رومی کا فقیر (اگر وہ بچا تو) نئے سرے سے آواز بلند کرے گا: کز دام و ددملولم و انسانم آرزوست (میں حدِ نگاہ تک پھیلے حیوانوں اور چوپایوں کو دیکھ کر عالمِ وحشت میں ہوں اور آدمی کی تلاش میں سرگرداں!)
پیشِ نظر سالنامے کی شاعری کا بڑا حصہ خاصا متاثر کن ہے۔ سلیم الرحمٰن کی ایک نظم اور بعض شعراء کی غزلوں سے کچھ نمونے درج ہیں: پہلے محمد سلیم الرحمٰن کی ایک اداس کر دینے والی بلیغ نظم: چاند مٹ جائے گا/ رات کٹ جائے گی/ نیند پھر بھی نہیں آئے گی/ کتنا خالی ہے پچھلے پہر/ چاندنی سے اٹا اپنا گھر/ کوئی آتا نہیں ہے یہاں / دوست اب کوئی باقی کہاں / جو بھی دیکھا نرا خواب تھا/ جو بھی تھا نقش بر آب تھا!
اور اب کچھ غزلیہ شعر: میں جس میں اپنا تماشا لگائے بیٹھا ہوں / وہ کائنات مرے خشک و تر کے ساتھ نہیں / بشر نے چھوڑ دیا ہے خدا کو اور اب تو/ یہ حال ہے کہ خدا بھی بشر کے ساتھ نہیں (ظفر اقبال)۔ اس نے یہ دیکھ کے بخشا ہے رفاقت کا شرف/ آدمی بندہئ تسلیم و رضا ہے کہ نہیں (انور شعور)۔ دل گرفتہ ہیں مگر اس کا سبب پوچھیں تو / یک زباں ہو کے یہی کہتے ہیں سب، کچھ بھی نہیں (یاسمین حمید)۔ دھوپ آنگن میں اترنے سے مجھے خوف آیا/ یعنی اس بار اجالے سے مجھے خوف آیا/ کچھ تو تھا جس کی وضاحت نہیں کی جا سکتی/ آج پھر اپنے ہی بیٹے سے مجھے خوف آیا/ چلنے لگا ہے پھر سے مرا دل رکا ہوا/ کیا تُو ہے آئینے کے مقابل رکا ہوا (غلام حسین ساجد)۔ نقشِ کوزہ گراں ہوئے معدوم/ ہاں سلامت ہے اعتبارِ خاک/ چار اطراف حیرتی اس کے/ ہے مگر کون رازدارِ خاک/ ذکر ہونے لگا مرا سرِ بزم/ کچھ تو محنت مری ٹھکانے لگی (ارشد محمود ناشاد)۔
مکالمے میں مرحومین کے لیے بھی دو گوشے ترتیب دیے گئے ہیں۔ گوشہئ رشید امجد اور گوشہئ شمس الرحمٰن فاروقی۔ گوشہئ شمس الرحمٰن فاروقی زیادہ متاثر کن ہے۔ دیکھیے بیٹی نے باپ کو (جن کو وہ بھائی کہتی تھیں) کس حزن اور چاہت سے یاد کیا ہے: ”ایک چھوٹی سی چاندی کی کٹوری بھی تھی جو میری والدہ کا تحفہ تھی۔۔ بھائی دوا کی گولیاں برآمد کرتے اور چاندی کی کٹوری میں انھیں رکھ دیتے۔ ایک ایک کر کے کوئی دس سے بارہ نیلی، نارنجی، بھوری اور سفید دوا کی گولیاں نکالی جاتی تھیں۔ وہ انھیں یخ پانی سے گلے کے نیچے اتارنا پسند کرتے تھے۔۔۔ گزرتے وقت کے ساتھ دواؤں کی مقدار بڑھتی رہی مگر وہ بغیر کسی شکایت کے انھیں نگلتے رہے۔ کثرتِ استعمال سے چاندی کی کٹوری گھس گئی تھی اور اس کا کنارا تڑخ گیا تھا۔ کٹوری کے بدلنے کا خیال ناقابلِ برداشت تھا!۔۔۔ ایک روز میں ان کے بازو پر پڑے ان نشانات کو دیکھ رہی تھی جو نسوں کے اندر انجکشن لگانے والی سوئیوں نے ڈالے تھے، ابا نے غالب کا شعر سنایا: لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا/ ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغ نہاں اور“۔ کیا خبر ان کے دل کے نہاں خانے میں ابھی اور کتنے داغ تھے جنھیں دکھائے بغیر ہی وہ رخصت ہو گئے۔ انسان ایک ورقِ ناخواندہ کے سوا ہے بھی کیا؟