زندگی بہت عجیب رنگ دکھاتی ہے۔کچھ رنگ زندگی کے اپنے حقیقی رنگوں میں شمار ہوتے ہیں اور کچھ رنگ ہم اپنی”رنگ بازی“ سے معاشرے اور سماج پر چڑھا دیتے ہیں۔جو رنگ ہم اپنی ”رنگ بازی“ سے معاشرے کے سپرد کرتے ہیں۔وہ رنگ ہمارا معاشرہ اور ہماری نسلِ نو بہت جلد قبول کرتی ہے۔ہماری رنگ بازی میں پہلا رنگ ہمارے قول و فعل میں تضاد کا ہے۔دوسرا رنگ ہماری غیر ذمہ داری کا ہے،تیسرا رنگ ہمارے رویوں میں بدترین کا ہے،چوتھا رنگ رشتوں کی ناقدری کا اور خون کی سفیدی کا ہے،پانچواں رنگ بے ایمانی ہے،چھٹا رنگ جھوٹ فریب اور دھوکہ دہی کا ہے،ساتواں رنگ حسد،حرص،لالچ اور ہوس کا ہے۔آٹھواں رنگ چور بازاری،رشوت ستانی اور بلیک میلنگ کا ہے،نوواں رنگ لوٹ مار اور قومی خزانے کو لوٹنے کا ہے،دسواں رنگ بحیثیت قوم ملک کی عزت و حمیت کی پامالی کاہے یعنی جتنے رنگ ہماری ”رنگ بازی“میں پائے جاتے ہیں اتنے رنگ نہ تو کسی اور معاشرے میں پائے جاتے ہیں اور نہ ہی کسی اور قوم میں پائے جاتے ہیں بلکہ اتنے رنگ تو قوس و قزح میں بھی نہیں ہوتے۔اگست آزادی کا مہینہ ہے۔یہ مہینہ ہر سال آتا ہے۔یکم اگست ہی سے آزادی کے متوالے جھنڈے اور جھنڈیوں سے اپنے گھر کی منڈیروں اور اپنے دفتر کی چھتوں کو مزین کرنا شروع کر دیتے ہیں۔لاکھوں گز کپڑا جھنڈے بنانے پر صرف ہوتا ہے اور غریب کی بیٹی تار تار کو ترستی ہے۔بلکہ ہم مینار پاکستان کے احاطے میں بھی کسی عورت کی عزت تار تار کرنے سے باز نہیں آتے اور عورت ذات آزاد ہو کر بھی ہم جیسے وحشی انسانوں بلکہ درندوں سے آزاد نہیں ہے۔جس تحصیل میں اسسٹنٹ کمشنر صاحب ہوں، 14 مجسٹریٹ ہوں،کئی تحصیلدار اور نائب تحصیلدارہوں، 5-6بلدیاتی چیف آفیسر ہوں، 4-5ایڈمنسٹریٹر ہوں، 15-16بڑے تھانیدار40-50 چھوٹے تھانیدار4-5 سو پولیس کے جوان ہوں،8-10فوڈ اتھارٹی ہوں پھر بھی وہاں جرائم ہوں، راہزنی ہو، ڈکیتی ہو، غریب کو مار پڑے، ناپ تول پورا نہ ہو،سوداور رشوت چلے،بد چلنی کے اڈے کھلے عام
چلیں،شراب فروشی ہو،جوا عام ہو،عورت محفوظ نہ ہو، پرائس کنٹرول نہ ہوں، دودھ میں پانی ہو، کھاد سے کوپن نکال لئے جائیں، کھانے پینے کی اشیاء ناقص ہوں، تجاوزات سے راستے تنگ ہوں،عدالتوں میں انصاف نہ ہو،قانون کی پاسداری نہ ہو،اس ملک میں آزادی کی قدر و قیمت کیا ہوگی؟اس ملک میں آزادی کے نعروں کی وقعت کیا ہو گی؟بہت سے اخبار،پرائیویٹ سکولز و کالجز،نیشنل کمپنیاں اور دیگر ادارے اپنا ”لوگو“پورا اگست سبز کیے رکھتے ہیں۔پورے ملک میں آزادی کا جشن منایا جاتا ہے مگر آزادی کی قدر و قیمت سے سب بے بہرہ ہیں۔اس ایک دن ہم آزادی کی تاریخ پر اس قدر دھواں دھار تقاریر کرتے ہیں کہ ہم جیسا محب وطن اور قوم پرست روئے زمین پرنہیں۔آزادی کیا تھی؟آزادی کیسے حاصل کی؟آزادی کے لیے کیا کیا قربانیاں دی گئیں؟آزادی کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے گئے؟ایسے ہزاروں واقعات میں صرف ایک واقعہ آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔قیام پاکستان کے کچھ ماہ بعد گاؤں کی ایک مسجد کے باہر ایک بابا جی اکثر نظر آتے ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا لوگ ترس کھا کر کوئی کھانے کی چیز رکھ جاتے کمزوری سے کبھی کوئی لقمہ لے لیا وگرنہ اکثر کھانا خراب ہو جاتا۔
زیادہ تر گم سم بیٹھے رہتے کبھی اپنے آپ سے باتیں کرتے پھر دن میں ایک دو دفعہ چیخ مارتے اور زور زور سے رونے لگتے۔بال نوچنے لگتے۔گریبان تار تار کرنے لگتے۔جسم کو ناخنوں سے کریدنے لگتے۔کبھی کبھی غش کھا کر گر بھی پڑے۔
ایک دن ان کے پاس ایک بزرگ بیٹھے تھے میں نے پوچھا آپ کون ہیں؟ بولے یہ میرے رشتہ دار ہیں۔میرے قریبی عزیز ہیں۔میرے دل میں تجسس پیدا ہوا۔میرے گمان میں ہلچل سی مچلنے لگی۔میں نے پوچھا۔بزرگو! یہ دن میں ایک دو دفعہ اونچی آواز سے بلقیس،بلقیس بولتے ہیں اور زور سے چیخ مار کر رونے لگتے ہیں۔ رشتہ دار کی آواز بھرا گئی۔ان کی چشم تر ہو گئی۔آنسو دریا بن گئے۔ بولے! پتر یہ بہت بڑے بیوپاری تھے پاکستان ہجرت کے وقت یہ ہندو اکثریتی علاقے میں رہتے تھے۔ ہندو گروہ کی شکل میں آتے جو گھر مسلمانوں کے ہوتے، بوڑھے مردوں اور بوڑھی خواتین کو مار دیا جاتا اور نوجوان لڑکیوں کو اٹھا کر ساتھ لے جاتے۔ یہ لمحات ہمارے لیے بڑے کرب ناک تھے۔
ایک دن ایسا ہی حملہ ان کے گھر پر ہوا ان کے گھر کے ساتھ ایک کنواں تھا۔ان کی ایک ہی لاڈلی اکلوتی بیٹی بلقیس تھی۔سترہ اٹھارہ سال کی بلقیس کو اس نے کنویں کے کنارے کھڑا کیا اس ڈر سے کہ بلوائی اس کی عزت خراب نہ کریں،دل پرہاتھ رکھا۔آنکھیں بند کیں اور اسے کنویں میں دھکا دے دیا۔گرتے ہوے بیٹی نے ایک زور دار چیخ ماری تھی جب بابا جی کو اپنی لاڈلی کی وہ چیخ یاد آتی ہے تو خود چیخ مار کر رونے لگتے ہیں۔
اس دکھ میں اس کرب میں اس اذیت میں ان کا ذہنی توازن بھی خراب ہوگیا اور یہ اندوہناک حادثہ ان کی ساری حیات کھا گیا۔
جب میں نے یہ کہانی سنی تو میرے آنسو میرے رخساروں کو بھگو گئے۔دکھ،کرب اور اذیت کا ایک طوفان میری روح کی ساری کلیاں مسل گیا اور میرے اندر ایک دکھوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔میں سوچنے لگا کہ ایسے ہی بابا جی جیسے لوگ پاکستان کے اصل وارث ہیں،،کتنا دلیر اور غیرت مند تھا وہ باپ جس نے اکلوتی بیٹی پاکستان اور عزت پر قربان کر دی اور کیسی دلیر وہ بیٹی بھی تھی جس نے کوئی مزاحمت نہ کی اور جان کی بازی لگا دی۔
یہ ہے جی ہماری یوم آزادی کیا اس آزادی کو ہماری نوجوان نسل کو موٹر سائیکل کے سائلنسر نکال کر ویل اٹھا کر منانا چاہیے یا ایسے شہدا کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں؟
یوم آزادی سے یہ مراد نہیں کہ ہم سکول میں ایک تقریب کر دیں،مٹھائی بانٹ دیں،ہلہ گلہ کرلیں بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو شعور دیں کہ وہ پاکستان کی اصل تاریح کو جان پائیں،آزادی کی قدرو قیمت کو پہچان سکیں۔ملک و قوم کی اساسیت کو پہچان سیکیں نہ کہ ”رنگ بازی“سے اپنا آپ دکھا کر ایک بدبودار معاشرے کی بنیاد رکھیں۔آزادی فقط ایفائے عہد کا نام ہے اور وہ ایفائے عہد ”لاالہ الا اللہ“میں پنہاں ہے۔