گزشتہ دنوں وادی کیلاش براستہ ڈیرہ اسماعیل خان موٹر وے (مغربی روٹ) تا اسلام آباد،دیر،چترال،کیلاش جانے کا اتفاق ہوا،موٹر وے پر جو کہ ڈیرہ جیسے پسماندہ علاقے کی ترقی کی ضامن بنے گی،اسلام آباد پہلی بار سفر کرنے کا اتفاق ہوا گو کہ ڈیرہ تا اسلام آباد موٹروے پر تاحال کام مکمل نہیں لیکن نوے فیصد راستہ مکمل ہے،صرف دو مقامات پر ڈائیورشن ہیں،اچھی گاڑی رکھنے والے افراد،فیملیز اس پر باآسانی سفر کرکے یارک انٹر چینج سے اسلام آباد صرف تین گھنٹے میں پہنچ سکتے ہیں،اس روٹ پر کام دوسال قبل مکمل ہوجانا تھا لیکن تبدیلی سرکار نے فنڈز بند کردیئے جس کے باعث منصوبہ تاخیر کا شکار ہوگیا،اب چند ماہ ہی میں انشاء اللہ ڈیرہ تا اسلام آباد کا سفر چھ گھنٹوں کی بجائے تین گھنٹوں میں طے ہوجائے گا،ضرورت اس بات کی ہے کہ اس راستے پر فوری طور پر قیام وطعام،مسجد،پیٹرول پمپس،ایمرجنسی،ریسٹ ایریا وغیرہ کی سہولیات تعمیر کرنے کے علاوہ ڈیرہ تایارک چالیس کلو میٹر سڑک کو بھی بہتر بنایا جائے،ہماری تحریر میں ڈیرہ موٹروے کا ذکر ضمناً آگیا،ہمار ا مقصد وادی کیلاش،چترال کے علاوہ اس اہم سڑک کی جوان علاقوں تک جاتی ہے کی حالت زار کا ذکر کرنا ہے،ہمارا راستے میں قیام اپر دیر کی بڑی شخصیت جنہوں نے اپنی محنت سے اپنا خاص مقام بنایا اور آج پیٹرول پمپس سمیت دیگر کاروبار کے مالک ہیں حاجی سرفراز کے گھر تھا،ایک رات قیام کے بعد راقم حاجی عبدالرشید دھپ،محمد رمضان،محمد حنیف،حاجی سرفراز،فرمان علی کے ہمراہ ہم کیلاش وادی کے لئے روانہ ہوئے،ان علاقوں کی قدرتی خوبصورتی لوگوں کا حسن واخلاق کوئی راز بات نہیں ہے،دوگاڑیوں میں سوار ہمارا قافلہ جب عثریت تک پہنچا تو سڑک کی حالت ناگفتہ بہ تھی،این ایچ اے اور ٹھیکیدار کے درمیان معاملات کی خرابی کے باعث یہ سڑک عرصہ کئی سال سے مرمت طلب ہے جس کی طرف حکومت خیبر پختونخوا،وفاق
کو توجہ دینی چاہئے،راستے میں ہمیں ساڑھے آٹھ کلو میٹر لمبی وسطی ایشیا کی سب سے لمبی سرنگ لواری ٹنل سے گزرنے کا اتفاق ہوا کہ انسان کی محنت،انجینئر کی مہارت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے، پہلے چترال کے لوگ ساڑھے آٹھ کلو میٹر کا سفر خاص کر سردیوں میں برف باری کے دنوں میں پہاڑوں کے ذریعے کرتے تھے جس کے باعث کئی افراد کی جانیں چلی گئیں،اب لواری ٹنل کے باعث سیاحوں کے ساتھ ساتھ چترال،دیر وغیرہ کی عوام کے لئے بھی آمدورفت،تجارت کا راستہ آسان ہوگیا ہے،ان علاقوں میں برف باری کے دنوں میں بجلی اور آمدورفت کا نظام کافی خراب ہوجاتاہے،حکومت گولین کے مقام پر بجلی کی پیداوار کے لئے 2012 سے پاور پلانٹ لگارہی ہے جس سے نو میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی،لیکن یہ اب بھی مطلوبہ ضرورت کے مطابق نہیں ہے،پینے کے پانی کے لئے قدرتی چشموں سے مدد لی جاتی ہے،لیکن حکومت وقت کو چاہئے کہ وہ سروے کرکے عوام کو پینے کا صاف پانی سٹور کرنے اور نکالنے کا بندوبست کرے،اس کے لئے گھروں تک پائپ لائننگ کی بھی اشد ضرورت ہے،وادی کیلاش جو کہ تین مشہور مقامات،بہبوریت،بیریز اوررمبور پہ مشتمل ہے میں تیس،پینتیس کلو میٹر روڈ مکمل خراب ہے،وادی کیلاش کو دیکھنے کے لئے سیاح دنیا بھر سے آتے ہیں،لیکن قابل افسوس امر ہے کہ پینتیس کلو میٹر کا راستہ ایک مشکل ترین پگڈنڈی پر مشتمل ہے جسے سڑک کہنا سڑک کی توہین ہے،وزارت سیاحت ٹورازم کو چاہئے کہ وہ اس سڑک کی تعمیر کو جلد از جلد ممکن بنائے، کیلاش میں قبل از مسیح تہذیب کے یونانی لوگ پہلے خود یہ نہیں چاہتے تھے کہ روڈ بننے کی صورت میں عوام اورسیاحوں کی ان تک رسائی ہو لیکن اب وہ لوگ بھی تبلیغی کام کے باعث نہ صرف مسلمان ہورہے ہیں بلکہ سیاحوں کی آمد،تجارت سے ان کا معیار زندگی بہتر ہورہا ہے،مشرف دور سے لوگوں کی آمدورفت شروع ہوئی ہے، پہلے کیلاش کے لوگوں میں تعلیم،غسل خانوں،بیت الخلا کا تصور تک نہ تھا لیکن اب ان میں شعور آجانے کے باعث ان کی تعمیر ہورہی ہے اور تعلیم کے حصول کے لئے وادی کیلاش کے لوگ آغا خان یونیورسٹی گلگت میں پڑھنے جارہے ہیں،واپسی پر ہم نے چترال میں شاہی مسجد کا وزٹ کیا جو کہ چترال کے فرمان روا سرشجاع الملک نے چھ کنال دو مرلہ کے رقبہ پر اپنی والدہ کی فرمائش پر تعمیر کی سوسال پرانی مسجد کے بارے میں روایت عام ہے کہ خزانہ خالی ہونے کی باعث 1919 میں مہتمد ریاست شجاع الملک کی والدہ نے اپنا زیور فروخت کرکے ستر ہزار کی خطیر رقم سے مسجد کی تعمیر کروائی جو آج سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے،ہمیں مسجد کے امام سے ملاقات کی بھی شرف حاصل ہوا جن کا خاندان بخارا سے آکر برسوں سے اس مسجد ومدرستہ کی خدمت میں مصروف ہے،مہتمد چترال شجاع الملک کے قلعہ کی حالت زار پر محکمہ آثار قدیم کی کارکردگی پر رونا آیا،قلعہ پر کوئی تحریر سیاحوں کی معلومات کے لئے موجود نہیں ہے،اور قلعہ جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے،شاہی مسجد کے دومینار جو کہ شاہی مسجد لاہور کی طرز پر تعمیر ہیں جن کی حالت دس سال پہلے نہایت ابتر ہوگئی تھی، نواز شریف نے اپنی وزارت اعلیٰ پنجاب کے دوران کے اپنے دور وزیر اعلی پنجاب کے دوران یہاں کا دورہ کیا اور مسجد کے میناروں کی دوبارہ تعمیر کے لئے سولہ لاکھ کی رقم دی جس سے مینار دوبارہ تعمیر کیے گئے،ڈیرہ تاوادی کیلاش دورے کے دوران ڈیرہ تااسلام آباد،ہزارہ اور پشاور موٹرویز کی تعمیر سے نواز شریف کے ادوار کی یاد اور ان کا وژن یاد آیا،موٹرویز،ٹنلز کی تعمیرات سے نہ صرف آمدورفت کے ذرائع بہتر ہونے سے سیاحوں اور عوام کی سہولت میسر ہوتی ہے بلکہ اس سے تجارتی،کاروباری،سرگرمیوں میں اضافہ کے علاوہ ملک کا سافٹ امیج پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔