این آراو دینے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ،احسن اقبال

11:24 AM, 24 Aug, 2020

اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ نیب کے ذریعے مشرف  دورکی طرح کی  پولیٹیکل انجینئرنگ کی کوشش کی جارہی ہے ،عمران خان کا این آراو  دینے کا سیاسی نعرہ تو ضرور ہوسکتا ہے مگر اس  کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں،عمران خان  این آراو دے سکتے ہیں نہ ان سے کوئی این آراو  مانگ رہا ہے وہ عدالتوں میں چلنے والے مقدمات سے کسی کو کیسے ریلیف  دے سکتے ہیں۔ 

انہوں نے کہاکہ حکومت مہنگائی  ،بیروزگاری ، غربت میں  روزافزوں اضافے ملکی معاشی اعشاریوں  میں کمی کشمیر کے حوالے سے بھارت پر دبائو ڈلوانے میں ناکامی جیسے اصل ایشو سے توجہ ہٹانے کیلئے نان ایشو کو ایشو بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ نواز شریف کی چلنے پھرنے کی تصویر پر یہ کہہ کر طنز کررہے ہیں اگر نواز شریف بیمارہوتا تو لندن میں سیرسپاٹے  نہ کرتا اصل بات  یہ ہے کہ نواز شریف کے معالجین  نے انہیں ہدایت کی ہے کہ آپ روزانہ تھوڑی بہت واک کیا کریں  کیونکہ 24گھنٹے ایک کمرے میں بند رہنے سے صحت مند بھی بیمار ہوجاتا ہے۔

اگر نواز شریف کی چہل قدمی کو سیرسپانے سے تعبیر کیا جائے تو یہ بڑا غیر مناسب ہے۔ عدالت  کے جس حکم  اور  حکومت کی جس اجازت سے نواز شریف گئے ہیں اب ان کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے تمام علاج کو مکمل کریں جب وہ مکمل صحت یاب ہوجائیں گے تو بغیر کوئی ایک لمحہ ضائع کیے واپس آجائیں گے  اس سے پہلے نواز شریف اپنی  بیمار بستر مرگ پر اپنی اہلیہ کو چھوڑ کر وطن واپس آگئے تھے اس وقت کرپشن کے جو تازہ اسکینڈل سامنے آئے ہیں اور دو سالوں میں جو ان کی نوعیت ہے وہ شاید ماضی میں کبھی کسی حکومت کے دوران نہ رہی  ہو۔

ہماری 5 سالہ  دور حکومت میں چینی کی قیممت 52-55 روپے فی کلو مستحکم رہی ان کے دور میں چینی کی قیمت 105 روپے کلو پر چلی گئی۔ اسی طرح پاکستان کی تاریخ میں کبھی یہ نہیں ہوا کہ گندم کی فصل  مارکیٹ میں آئی ہو اور 15دن کے اندر آٹے کا بحران پیدا ہوگیا ہو اور آٹا مہنگاہوگیا ہے۔ ان کے وزیر کو محض اس لئے تبدیل کیا گیا کہ اس نے کمیشن لے کر ادویات کی قیمتیں بڑھوائیں۔

وزارت تو اس سے لے لی گئی مگر پارٹی کا جنرل سیکرٹری لگا دیا گیا پھر جہانگیر ترین کو حکومتی چھتری  کے نیچے بیرون ملک جانے میں مدد کی گئی۔ حکومت اپوزیشن کو تو جھوٹے مقدموں میں پکڑنے کیلئے بھی بڑی تیزی دکھاتی ہے لیکن ان کی اپنی کرپشن جو رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ان کے ملزمان کو بھگا دیا گیا ہے ہم پوچھتے ہیں کہ کیا ان کے خلاف نیب غیر موثر ہو جاتا ہے اس وقت ملک میں احتساب نہیں ہورہا بلکہ نیب کے ذریعے پولیٹیکل انجینئرنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے مشرف  دور میں نیب کرتا تھا۔

جہانگیر ترین وزیراعظم کے تمام سیاسی اخراجات اٹھاتے تھے پھر اپنے محسن کے آگے عمران خان کیسے کھڑے ہوسکتے ہیں۔ احسن اقبال  نے کہاکہ عمران خان کا انکم ٹیکس اتنا ہی ہے جتنا میں ادا کرتا ہوں۔ میں اتنی آمدن میں اسلام آباد میں کرائے کے مکان میں رہتا ہوں  ۔عمران خان اسی آمدن میں 300 کنال کے محل میں رہتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ عمران خان  نے زمان پارک کے قریب دس کروڑ کا گھر بھی  نیا بنالیا ہے ۔ عمران خان  کے آمدن کے کونسے ذرائع  ہیں کہ انہوں نے اپنی سیاست کا خرچہ بھی اٹھایا ہواہے اورٹیکس بھی اتنا ہی دیتے ہیں جتنا عام آدمی دیتا ہے۔ صاف ظاہر  ہے کہ ان کے اے ٹی ایم ہیں ان کے سپانسر ہیں جن کے وہ پیسے کھاتے ہیں اور پھر ان کو استعمال کرتے ہیں اور منافع خوری کرتے ہیں اگر وہ عمران خان  پر دس کروڑ لگاتے ہیں تو دس ارب روپے کمالیتے ہیں۔

ایک طرف کہتے ہیںکہ نیب آزاد ادارہ ہے۔ ہمارا اس پر کوئی انتظامی اختیار نہیں ہے۔ اگر نیب پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے تو پھر یہ نیب کا این آراو کیسے دے سکتے۔ اگر یہ کہتے ہیں کہ ہم ہی این آراو دیں گے تو اس کا صاف مقصد یہی  ہے کہ وہ اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ نیب جوکچھ کررہا ہے وہ نیب  نیازی گٹھ جوڑ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مقدمات عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ اگر کوئی چیف جسٹس یہ بیان دے کر مجھ سے این آراو مانگا جارہا ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے ۔

عمران خان کس طریقے  سے عدلیہ کے معاملات میںمداخلت کریں گے۔ وہ ہائیکورٹ ، احتساب عدالت یا سپریم کورٹ میں چلنے والے کسی مقدمے سے کسی کو کیسے ریلیف دے سکتے ہیں۔ عمران خان کا این آراو  دینے کا سیاسی نعرہ تو ضرور ہوسکتا مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں  ہے۔ نہ وہ کسی کو این آراو دے سکتے ہیں نہ ان سے کوئی این آراو مانگ رہا ہے چونکہ ان کی کارکردگی  صفر بٹا  صفر ہے اس لئے نان ایشو پر لوگوں کی توجہ کراتے رہتے ہیں.

مزیدخبریں