بھارتی پنجاب ملوٹ:ساری دنیا جانتی ہے کہ 70 برس قبل برطانوی حکومت سے آزادی ملنے کے بعد سےاب تک پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کشیدہ ہی ہیں۔مگر ایک بھارت اور پاکستان ایسے بھی ہیں جو ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں اور مشکل وقت میں آگے بڑھ کر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے۔یہ انڈین پنجاب کے علاقے ملوٹ میں رہنے والے دو سگے بھائی بھارت سنگھ اور پاکستان سنگھ ہیں۔بھارت سنگھ کی عمر 12 سال ہے اور پاکستان سنگھ کی 11 سال اور ان دونوں بچوں کے یہ نام ان کے والد گرمیت سنگھ نے رکھے ہیں۔بھارت سنگھ کے نام پر تو کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہوا مگر سنہ 2007 میں جب گرمیت کے گھر دوسرا بیٹا پیدا ہوا تو انھوں نے اس کا نام پاکستان سنگھ رکھ دیا۔نئے مہمان کے آنے کی خوشی تو تھی، مگر اس کے نام پر اعتراض کرنے والے بھی کم نہ تھے۔
گرمیت سنگھ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹوں کے نام محبت کا پیغام پہنچانے کے لیے رکھے ہیں،گرمیت سنگھ کہتے ہیں کہ 'چھوٹے بیٹے کے نام پر رشتہ داروں اور پڑوسیوں نے اعتراض کیا مگر میرا فیصلہ نہیں بدلا۔گرمیت سکول میں بھی اپنے چھوٹے بیٹے کا نام پاکستان سنگھ لھوانا چاہتے تھے لیکن انتظامیہ نے نام تبدیل کرنے کی شرط پر ہی داخلہ دیا یوں دستاویزات میں پاکستان سنگھ کا نام رندیپ سنگھ لکھوایا گیا ہے لیکن یہ نام صرف سکول کی حد تک ہی ہے۔
پاکستان سنگھ کا کہنا تھا کہ سکول میں تو میرا نام رندیپ سنگھ ہے مگر میرے دوست مجھے پاکستان سنگھ ہی پکارتے ہیں۔بھارت سنگھ اور پاکستان سنگھ مل کر خوب شرارتیں کرتے ہیں۔ دونوں میں کبھی کبھی لڑائی بھی ہوتی ہے مگر جلد ہی صلح بھی ہو جاتی ہے۔پاکستان سنگھ کا کہنا تھا کہ 'جب ماں بھارت سنگھ کی پٹائی کرتی ہے یا باہر کوئی اسے مارتا ہے تو میں ہی اسے بچاتا ہوں۔
کچھ سال پہلے ہی گرمیت سنگھ نے نیشنل ہائی وے 10 پر دکان کھولی تو دکان کا بھی نام بیٹوں کے نام پر یعنی 'بھارت پاکستان وڈ ورکس' رکھا۔گرمیت کے مطابق یہ نام پڑھ کر جہاں لوگ ان کا مذاق اڑاتے ہیں وہیں انھیں ڈرایا بھی جاتا ہے اور نام تبدیل کرنے کے لیے کہا جاتا ہے مگر وہ نہیں مانتے۔ان کا کہنا ہے کہ ' کچھ مقامی سیاستدانوں نے ان پر دبا بھی ڈالا کہ وہ یہ بورڈ اتار دیں۔پھر کہا گیا کہ بھارت سنگھ تو ٹھیک ہے مگر پاکستان سنگھ تبدیل کر دو۔تاہم گرمیت کے اس قدم کی تعریف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہائی وے پر دکان ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ گاڑیاں روک کر دکان کا یہ نام رکھنے کی وجہ پوچھنے بھی آتے ہیں۔
گرمیت سنگھ کا کہنا تھا کہ ان کے بزرگ تقسیم کے وقت پاکستان سے انڈیا آئے تھے اور بٹوارے سے قبل وہ پاکستان کے ضلع شیخوپوہ کے گاں رتی ٹبی میں رہتے تھے۔ان کے مطابق انڈیا آنے کے بعد 'کچھ ہریانہ کے ضلع کرنال میں رہنے کے بعد ہریانہ کے ہی ہانسی میں آباد ہو گئے مگر میرے خاندان کو ہانسی سے بھی نکلنا پڑا۔1984 میں سکھ مخالف فسادات کے بعد ان کا خاندان پنجاب کے علاقے ملوٹ آیا۔ اس وقت گرمیت تقریبا 12 برس کے تھے۔گرمیت نے وہ وقت یاد کرتے ہوئے کہا، '1984 میں جب میں بچہ تھا تو مجھے سکھ دہشت گرد کہہ کر پکارا گیا۔ تب مجھے اس کا مطلب سمجھ نہیں آیا تھا۔گرمیت کہتے ہیں کہ سچ کہوں تو لوگوں نے ہمیں مکمل طور پر نہیں اپنایا۔ ہمارے بزرگ پاکستان میں سب کچھ چھوڑ کر ہندوستان آئے۔ پھر ہم ہریانہ میں سب کچھ چھوڑ کر پنجاب آ گئے۔ ہمیں بھٹکتے ہوئے 70 سال ہو گئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ 'ہمارے بزرگ پاکستان میں اپنا گاوں دیکھنے کو بھی ترس گئے۔ وہ یہ خواہش دل میں لیے ہی دنیا سے چلے گئے۔خود گرمیت نے گذشتہ سال اپنے دوستوں کے ساتھ پاکستان جانے کے بارے میں سوچا تھا۔ وہ تاریخی گردوارے دیکھنے جانا چاہتے تھے مگر ان کا کہنا ہے کہ 'نوٹ بندی' کی وجہ سے سارا منصوبہ چوپٹ ہو گیا۔
دونوں ملکوں میں کشیدگی کے بارے میں سوال پر ان کا کہنا ہے کہ رہنماؤں کے حساب سے جنگ درست ہے، مرتا تو عام شہری ہے جی۔ دونوں طرف۔ سرحد پر تعینات فوجی بھی غریب خاندانوں سے آتے ہیں۔گرمیت کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں محبت اور امن کا پیغام دینے کے لیے ہی انھوں نے بیٹوں کے نام بھارت سنگھ اور پاکستان سنگھ رکھے ہیں۔
بشکریہ بی بی سی