اسلام آباد: لاپتہ بلوچ طلبہ کی بازیابی کیلئے دائر درخواست پر سماعت اسلام ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کی، اٹارنی جنرل نے بازیاب ہونے والے لاپتہ افراد سے متعلق رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس پٹیشن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی تھی، یہ واضح ہے اسٹیٹ، عدالتیں کسی دہشت گرد کی پروٹیکشن نہیں کریں گی۔ سوال تب اٹھتا ہے جب قانون سے ماورا کوئی اقدام ہوتا ہے، پولیس جیسی بھی کاروائی کرتی ہے اس کو تو ہم دیکھ لیتے ہیں ٹھیک ہوئی یا نہیں۔
وکیل ایمان مزاری نے بتایا کہ جس دن نگران وزیراعظم اس عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے اسی روز ایک بلوچ سٹوڈنٹ اٹھایا گیا تھا، اگلے دن اس مسنگ سٹوڈنٹ کو راولپنڈی سے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ پولیس والوں کو تو آرام سے معطل کر دیتے ہیں کیونکہ وہ جو کرتے ہیں سب کے سامنے کرتے ہیں، کیا ایجنسیز میں کوئی جواب دہ ہے خود احتسابی کہاں پر ہے جو نظر آئے؟ ۔ میری رائے جبری گمشدگی کمیشن کے خلاف اسی لئے ہے کیونکہ یہ انہی کے ساتھ بیٹھ کر کام کر رہے ہوتے ہیں جن پر الزام ہوتا ہے، جو ادارے قانون کے ماتحت ہیں وہ تو ریگولیٹ ہو جاتے ہیں ، جو قانون سے ماورا کاروائی کرتے ہیں ان کی ریگولیشن کیا ہے؟
پولیس والے تو اچھے لوگ ہیں کیونکہ وہ کاروائی سب کے سامنے کرتے ہیں ٹھیک ہو یا غلط، وفاقی حکومت وزارت دفاع سے پوچھ کر بتا دیں ایجنسیز کے اندر کیا خود احتسابی کا عمل ہے؟ ٹھیک ہے ورکنگ میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں وہ جواب دہ نہیں، کیا کسی کے خلاف ڈیپارٹمنٹل کارروائی کی گئی ہے؟
عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر کوئی دہشت گرد ہے تو پرچہ دیں کاروائی کریں لیکن ماورائے عدالت کاروائی نہ کریں، ایجنسیز کا کردار کسی قانون کے تحت ہو گا، جس طرح ایف آئی اے اور دیگر اداروں کا ہے، ہر ادارے نے اپنے اختیار کے اندر رہ کر کام کرنا ہے عدالت نے بھی اپنے اختیار کے اندر رہ کر کام کرنا ہے، قانون کے مطابق کسی بھی معاملے کو حل کرنے کے ہزار طریقے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ جن کا کوئی پیارا لاپتہ ہے وہ کوئی عام آدمی، وکیل یا جج کا رشتہ دار ہو یہ عمل ان کے اندر نفرت پیدا کرتا ہے۔ ایک گھر کا مرد ہے اس کا بھائی لاپتہ ہے اس کی ماں بہن بیٹی پر کیا گزر رہی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ایک کمیٹی بنائی جس میں ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی، ڈی جی ایم آئی تھے، جس پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ اس کے حوالے سے ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔
آپ اگر آرڈر میں ترمیم کرانا چاہتے ہیں متفرق درخواست دائر کریں عدالت کو مطمئن کریں، ہم نے لاپتہ افراد کے اس معاملے کو حل کرنا ہے، میرا ماننا ہے کہ وزیراعظم، سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ نہیں بلکہ وہ تین لوگ ہی اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں، کمیٹی بنانے کے حوالے سے کوئی اعتراض ہے تو وجوہات بتا کر عدالت کو مطمئن کریں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ پٹشنرز کی وکیل بتا رہی ہیں جس دن وزیراعظم یہاں بیان دے کے گئے اسی روز ایک بندے کو اٹھا لیا گیا، اس سے پتہ چلتا ہے وزہراعظم کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، یا تو پارلیمنٹ یہ معاملہ دیکھے کہ ایجنسیوں کا اختیار قانون کے مطابق ہو گا۔
بعد ازاں عدالت نے بلوچ طلبہ کی بازیابی کیلئے دائر درخواست پر سماعت 21 مئی تک ملتوی کر دی گئی۔